عہد شکنی۔
راوی: محمود بن غیلان , ابوداؤد , شعبہ , ابوفیض , سلیم بن عامر
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو الْفَيْضِ قَال سَمِعْتُ سُلَيْمَ بْنَ عَامِرٍ يَقُولُ کَانَ بَيْنَ مُعَاوِيَةَ وَبَيْنَ أَهْلِ الرُّومِ عَهْدٌ وَکَانَ يَسِيرُ فِي بِلَادِهِمْ حَتَّی إِذَا انْقَضَی الْعَهْدُ أَغَارَ عَلَيْهِمْ فَإِذَا رَجُلٌ عَلَی دَابَّةٍ أَوْ عَلَی فَرَسٍ وَهُوَ يَقُولُ اللَّهُ أَکْبَرُ وَفَائٌ لَا غَدْرٌ وَإِذَا هُوَ عَمْرُو بْنُ عَبَسَةَ فَسَأَلَهُ مُعَاوِيَةُ عَنْ ذَلِکَ فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ کَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ قَوْمٍ عَهْدٌ فَلَا يَحُلَّنَّ عَهْدًا وَلَا يَشُدَّنَّهُ حَتَّی يَمْضِيَ أَمَدُهُ أَوْ يَنْبِذَ إِلَيْهِمْ عَلَی سَوَائٍ قَالَ فَرَجَعَ مُعَاوِيَةُ بِالنَّاسِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
محمود بن غیلان، ابوداؤد، شعبہ، ابوفیض، سلیم بن عامر کہتے ہیں کہ معاویہ اور اہل روم کے درمیان معاہدہ صلح تھا اور معاویہ ان کے علاقے کی طرف اس ارادے سے پیش قدمی کرنے لگے کہ جیسے ہی صلح کی مدت پوری ہو ان پر حملہ کر دیں۔ اسی اثناء میں ایک سوار یا گھڑ سوار (راوی کو شک ہے) یہ کہتا ہوا آیا کہ اللَّهُ أَکْبَرُ تم لوگوں کو وفاء عہد کرنا ضروری ہے عہد شکنی نہیں۔ دیکھا گیا کہ وہ عمرو بن عبسہ تھے۔ حضرت معاویہ نے ان سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا جس کا کسی قوم سے معاہدہ ہو تو وہ معاہدے کو نہ توڑے جب تک اس کی مدت ختم نہ ہو جائے اور نہ اس میں تبدیلی کرے یا پھر اس عہد کو ان کی طرف پھینک دے تاکہ انہیں پتہ چل جائے کہ ہمارے اور ان کے درمیان صلح نہیں رہی۔ یہ سن کر حضرت معاویہ لشکر واپس لے گئے یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Sulaym ibn Aamir reported that a peace treaty existed between Mu’awiyah (RA) and the people of Rome. He advanced towards them with the intention to attack them the moment the treaty expired. Suddenly, a rider on a beast or, horse rider came rushing and calling out, ‘Allahu Akbar! Faithfulness, not betrayal.” He was Amr ibn Abasah Mu’awiyah asked him about it and he said, “1 had heard Allah’s Messenger (SAW) say, “If anyone has a covenant with a people then it is not lawful for him to violate it or alter it till its expiry, or he should throw it towards them that they may know that it is rescinded.’ So, Mu’awiyah retreated.
[Abu Dawud 2759, Ahmed 17012]