دیت میں کتنے اونٹ دئے جائیں
راوی: ابوہشام , ابن ابی زائدہ , ابوخالد , حجاج بن ارطاة , عبداللہ بن عمر
أَخْبَرَنَا أَبُو هِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ وَأَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ نَحْوَهُ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ مَوْقُوفًا وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَی هَذَا وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَقَدْ أَجْمَعَ أَهْلُ الْعِلْمِ عَلَی أَنَّ الدِّيَةَ تُؤْخَذُ فِي ثَلَاثِ سِنِينَ فِي کُلِّ سَنَةٍ ثُلُثُ الدِّيَةِ وَرَأَوْا أَنَّ دِيَةَ الْخَطَإِ عَلَی الْعَاقِلَةِ وَرَأَی بَعْضُهُمْ أَنَّ الْعَاقِلَةَ قَرَابَةُ الرَّجُلِ مِنْ قِبَلِ أَبِيهِ وَهُوَ قَوْلُ مَالِکٍ وَالشَّافِعِيِّ و قَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّمَا الدِّيَةُ عَلَی الرِّجَالِ دُونَ النِّسَائِ وَالصِّبْيَانِ مِنْ الْعَصَبَةِ يُحَمَّلُ کُلُّ رَجُلٍ مِنْهُمْ رُبُعَ دِينَارٍ وَقَدْ قَالَ بَعْضُهُمْ إِلَی نِصْفِ دِينَارٍ فَإِنْ تَمَّتْ الدِّيَةُ وَإِلَّا نُظِرَ إِلَی أَقْرَبِ الْقَبَائِلِ مِنْهُمْ فَأُلْزِمُوا ذَلِکَ
ابوہشام، ابن ابی زائدہ، ابوخالد، حجاج بن ارطاة، عبداللہ بن عمر روایت کی ابن ابی زائدہ نے اور ابوخالد احمر نے حجاج بن ارطاة سے اسی کے مثل، اس باب میں عبداللہ بن عمرو سے بھی روایت ہے ابن مسعود کی حدیث کو ہم صرف اسی سند سے مرفوع جانتے ہیں۔ یہ حدیث حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ موقوفاً بھی مروی ہے بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں۔ امام احمد اور اسحاق کا یہی قول ہے اہل علم کا اسی پر اجماع ہے کہ دیت تین سالوں میں ہر سال ایک تہائی کے حساب سے لی جائے وہ کہتے ہیں کہ قتل خطاء کی دیت عاقلہ پر ہے بعض علماء کے نزدیک عاقلہ سے مرد کی طرف سے رشتہ دار مراد ہیں امام شافعی اور امام مالک کا یہی قول ہے بعض اہل علم فرماتے ہیں کہ دیت عصبہ مردوں پر ہے عورتوں پر نہیں ہے پھر ان میں سے ہر ایک ربع دینار ادا کرے بعض کہتے ہیں کہ نصف دینار ادا کرے۔ اگر دیت پوری ہو جائے تو ٹھیک ورنہ باقی دیت ان کے قریبی قبائل میں سے قریب ترین قبیلے پر لازم کی جائے۔