مال دار کی قرض کی ادائیگی میں تاخیر کرناظلم ہے
راوی: ابراہیم بن عبداللہ، ہشیم، یونس بن عبید
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْهَرَوِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ قَالَ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ وَإِذَا أُحِلْتَ عَلَى مَلِيءٍ فَاتْبَعْهُ وَلَا تَبِعْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَمَعْنَاهُ إِذَا أُحِيلَ أَحَدُكُمْ عَلَى مَلِيٍّ فَلْيَتْبَعْ فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِذَا أُحِيلَ الرَّجُلُ عَلَى مَلِيءٍ فَاحْتَالَهُ فَقَدْ بَرِئَ الْمُحِيلُ وَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَرْجِعَ عَلَى الْمُحِيلِ وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِذَا تَوِيَ مَالُ هَذَا بِإِفْلَاسِ الْمُحَالِ عَلَيْهِ فَلَهُ أَنْ يَرْجِعَ عَلَى الْأَوَّلِ وَاحْتَجُّوا بِقَوْلِ عُثْمَانَ وَغَيْرِهِ حِينَ قَالُوا لَيْسَ عَلَى مَالِ مُسْلِمٍ تَوًى قَالَ إِسْحَقُ مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ لَيْسَ عَلَى مَالِ مُسْلِمٍ تَوِيَ هَذَا إِذَا أُحِيلَ الرَّجُلُ عَلَى آخَرَ وَهُوَ يَرَى أَنَّهُ مَلِيٌّ فَإِذَا هُوَ مُعْدِمٌ فَلَيْسَ عَلَى مَالِ مُسْلِمٍ تَوًى
حدیث ابوہریرہ حسن صحیح ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ اگر کسی کو کسی مالدار کی طرف حوالہ کیا جائے تو اس سے وصول کرے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اگر اس مالدار نے قبول کرلیا تو قرض دار بری ہوگیا وہ اس سے طلب نہیں کرسکتا امام شافعی، احمد، اسحاق کا بھی یہی قول ہے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اگر محال علیہ (جس کی طرف حوالہ کا گیا) مفلس ہو جائے اور قرض خواہ کا مال ضائع ہو جائے تو اس صورت میں دوبارہ پہلے قرض دار سے رجوع کرنے کا حق رکھتا ہے۔ کیونکہ حضرت عثمان سے منقول ہے کہ مسلمان کا مال ضائع نہیں ہوسکتا۔ اسحاق بھی اسی کے قول کے یہی معنی بیان کرتے ہیں کہ اگر کسی شخص کو کسی دوسرے کی طرف حوالہ کیا جائے اور جو بظاہر غنی معلوم ہوتا ہو لیکن حقیقت میں وہ مفلس ہو تو اس صورت میں قرض خواہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ پہلے قرضدار سے رجوع کرے۔