غلام خریدنا پھر نفع کے بعد عیب پر مطلع ہونا۔
راوی: ابوسلمہ , یحیی بن خلف , عمر بن علی , ہشام بن عروہ , عائشہ
حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَی بْنُ خَلَفٍ أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيُّ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَی أَنَّ الْخَرَاجَ بِالضَّمَانِ قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رَوَی مُسْلِمُ بْنُ خَالِدٍ الزَّنْجِيُّ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ وَرَوَاهُ جَرِيرٌ عَنْ هِشَامٍ أَيْضًا وَحَدِيثُ جَرِيرٍ يُقَالُ تَدْلِيسٌ دَلَّسَ فِيهِ جَرِيرٌ لَمْ يَسْمَعْهُ مِنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ وَتَفْسِيرُ الْخَرَاجِ بِالضَّمَانِ هُوَ الرَّجُلُ يَشْتَرِي الْعَبْدَ فَيَسْتَغِلُّهُ ثُمَّ يَجِدُ بِهِ عَيْبًا فَيَرُدُّهُ عَلَی الْبَائِعِ فَالْغَلَّةُ لِلْمُشْتَرِي لِأَنَّ الْعَبْدَ لَوْ هَلَکَ هَلَکَ مِنْ مَالِ الْمُشْتَرِي وَنَحْوُ هَذَا مِنْ الْمَسَائِلِ يَکُونُ فِيهِ الْخَرَاجُ بِالضَّمَانِ قَالَ أَبُو عِيسَی اسْتَغْرَبَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ حَدِيثِ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ قُلْتُ تَرَاهُ تَدْلِيسًا قَالَ لَا
ابوسلمہ، یحیی بن خلف، عمر بن علی، ہشام بن عروہ، عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ ہر چیز کا نفع اسی کے لئے ہے جو اس کا ضامن ہے۔ یہ حدیث ہشام بن عروہ کی روایت سے صحیح غریب ہے۔ امام بخاری نے عمر بن علی کی روایت سے اسے غریب کہا ہے یہ حدیث مسلم بن خالد زنجی بھی ہشام بن عروہ سے روایت کرتے ہیں جریر نے بھی اس حدیث کو ہشام سے روایت کیا۔ کہا گیا ہے کہ جریر کی روایت میں تدلیس ہے اس لئے کہ جریر نے ہشام سے یہ حدیث نہیں سنی۔ اس حدیث کی تفسیر یہ ہے کہ ایک شخص نے غلام خریدا اور اس سے نفع اٹھایا بعد میں پتہ چلا کہ اس میں کوئی عیب ہے تو اسے واپس کر دیا اس صورت میں اس نے جو کچھ غلام کے ذریعے کمایا وہ اسی کا ہوگا کیونکہ اگر وہ غلام ہلاک ہو جاتا تو خسارہ خریدنے والے ہی کا تھا۔ اس قسم کے دوسرے مسائل کا یہی حکم ہے کہ نفع اسی کا ہوگا جو ضامن ہوگا۔
Sayyidah Ayshah (RA) reported that Allah’s Messenger (SAW) gave judgment that the defect found in a slave was offset by the profit derived from his work.
[Abu Dawud 3508, Nisai 4497)