جو شخص اپنی بیوی کو البتہ کے لفظ سے طلاق دے
راوی: ہناد , قبیصہ , جریر , زبیر بن سعد , عبداللہ بن یزید بن رکانہ
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ عَنْ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ رُکَانَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي طَلَّقْتُ امْرَأَتِيَ الْبَتَّةَ فَقَالَ مَا أَرَدْتَ بِهَا قُلْتُ وَاحِدَةً قَالَ وَاللَّهِ قُلْتُ وَاللَّهِ قَالَ فَهُوَ مَا أَرَدْتَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ فِيهِ اضْطِرَابٌ وَيُرْوَی عَنْ عِکْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رُکَانَةَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا وَقَدْ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ فِي طَلَاقِ الْبَتَّةِ فَرُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّهُ جَعَلَ الْبَتَّةَ وَاحِدَةً وَرُوِيَ عَنْ عَلِيٍّ أَنَّهُ جَعَلَهَا ثَلَاثًا و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِيهِ نِيَّةُ الرَّجُلِ إِنْ نَوَی وَاحِدَةً فَوَاحِدَةٌ وَإِنْ نَوَی ثَلَاثًا فَثَلَاثٌ وَإِنْ نَوَی ثِنْتَيْنِ لَمْ تَکُنْ إِلَّا وَاحِدَةً وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْکُوفَةِ و قَالَ مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ فِي الْبَتَّةِ إِنْ کَانَ قَدْ دَخَلَ بِهَا فَهِيَ ثَلَاثُ تَطْلِيقَاتٍ و قَالَ الشَّافِعِيُّ إِنْ نَوَی وَاحِدَةً فَوَاحِدَةٌ يَمْلِکُ الرَّجْعَةَ وَإِنْ نَوَی ثِنْتَيْنِ فَثِنْتَانِ وَإِنْ نَوَی ثَلَاثًا فَثَلَاثٌ
ہناد، قبیصہ، جریر، زبیر بن سعد، حضرت عبداللہ بن یزید بن رکانہ اپنے والد اور وہ ان کے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو بتہ طلاق دی آپ نے پوچھا اس سے آپ کی کیا مراد ہے کتنی طلاقیں مراد ہیں میں نے کہا کہ ایک۔ آپ نے فرمایا اللہ کی قسم میں نے کہا ہاں اللہ کی قسم۔ پس آپ نے فرمایا وہی ہوگی جو تم نے نیت کی۔ اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں علماء، صحابہ، اور دوسرے علماء کا لفظ البتہ کے استعمال میں اختلاف ہے کہ اس سے کتنی طلاقیں مراد ہوتی ہیں حضرت عمر سے مروی ہے کہ یہ ایک ہی طلاق ہے۔ حضرت علی فرماتے ہیں کہ اس سے تین طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں بعض اہل علم فرماتے ہیں کہ طلاق دینے والے کی نیت کا اعتبار ہے اگر ایک طلاق کی نیت کی ہو تو ایک اگر تین کی نیت کی ہو تو تین واقع ہوتی ہیں لیکن اگر دو کی نیت کی ہو تو ایک ہی واقع ہوگی۔ سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے۔ امام مالک بن انس فرماتے ہیں اگر لفظ البتہ کے ساتھ طلاق دے اور عورت سے صحبت کر چکا تو تین طلاق واقع ہوں گی امام شافعی فرماتے ہیں کہ اگر ایک طلاق کی نیت ہو تو ایک واقع ہوگی اور رجوع کا اختیار ہوگا اگر دو کی نیت کی ہو تو دو اگر تین کی نیت کی ہو تو تین واقع ہوں گی۔
Abdullah ibn Yazid ibn Rukanah reported on the authority of his father from his grandfather that he said that he went to the Prophet and said, “0 Messenger of Allah! I have divorced my wife (the divorce) albattah.” He asked. “What did you intend by that?” He said, ‘One pronouncement.” He asked, “By Allah?” He answered, “(Yes), by Allah!” So, the Prophet (SAW) said, “And that is as you had intended.” (only one is reckoned).
[Abu Dawud 2208, Ibn e Majah 2051]