جو حاکم ایماندار ہو تو وہ بحالت غصہ فیصلہ کر سکتا ہے
راوی: یونس بن عبدالاعلی وحارث بن مسکین , ابن وہب , یونس بن یزید ولیث بن سعد , ابن شہاب , عروة بن زبیر , عبداللہ بن زبیر , زبیر بن عوام
أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْکِينٍ عَنْ ابْنِ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ وَاللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ أَنَّهُ خَاصَمَ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شِرَاجِ الْحَرَّةِ کَانَا يَسْقِيَانِ بِهِ کِلَاهُمَا النَّخْلَ فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ سَرِّحْ الْمَائَ يَمُرُّ عَلَيْهِ فَأَبَی عَلَيْهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْقِ يَا زُبَيْرُ ثُمَّ أَرْسِلْ الْمَائَ إِلَی جَارِکَ فَغَضِبَ الْأَنْصَارِيُّ وَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ کَانَ ابْنَ عَمَّتِکَ فَتَلَوَّنَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ يَا زُبَيْرُ اسْقِ ثُمَّ احْبِسْ الْمَائَ حَتَّی يَرْجِعَ إِلَی الْجَدْرِ فَاسْتَوْفَی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلزُّبَيْرِ حَقَّهُ وَکَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ ذَلِکَ أَشَارَ عَلَی الزُّبَيْرِ بِرَأْيٍ فِيهِ السَّعَةُ لَهُ وَلِلْأَنْصَارِيِّ فَلَمَّا أَحْفَظَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَنْصَارِيُّ اسْتَوْفَی لِلزُّبَيْرِ حَقَّهُ فِي صَرِيحِ الْحُکْمِ قَالَ الزُّبَيْرُ لَا أَحْسَبُ هَذِهِ الْآيَةَ أُنْزِلَتْ إِلَّا فِي ذَلِکَ فَلَا وَرَبِّکَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّی يُحَکِّمُوکَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ وَأَحَدُهُمَا يَزِيدُ عَلَی صَاحِبِهِ فِي الْقِصَّةِ
یونس بن عبدالاعلی وحارث بن مسکین، ابن وہب، یونس بن یزید ولیث بن سعد، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، عبداللہ بن زبیر، زبیر بن عوام کا ایک انصاری شخص سے جھگڑا ہوگیا(جو کہ غزوہ بدر میں شریک تھا) پانی کے بہاؤ کے سلسلہ میں حرہ پر (واضح رہے کہ حرہ مدینہ منورہ میں ایک پتھریلی زمین ہے) دونوں (یعنی حضرت زبیر اور وہ انصاری) اس پانی سے کھجور کے درختوں کو سیراب کرتے تھے انصاری شخص کہتا تھا کہ پانی بہنے دو حضرت زبیر نے اس بات کو تسلیم نہیں فرمایا اور انکار کیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے زبیر تم پانی اپنے درختوں کو دے دو پھر چھوڑ دو اپنے پڑوسی کی طرف۔ یہ بات سن کر انصاری کو غصہ آگیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (حضرت) زبیر کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پھوپھی کے لڑکے ہیں(یعنی اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی رعایت فرمائی) یہ بات سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ انور کا (غصہ کی وجہ سے) رنگ تبدیل ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے زبیر تم درختوں کو پانی پلاؤ اور پھر تم پانی کو روکے ہوئے رکھو یہاں تک کہ وہ پانی درختوں کی مینڈھوں کے برابر چڑھ جائے۔ اب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زبیر کو ان کا پورا حق دلا دیا اور پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو حکم فرمایا تھا اس میں انصاری کا نفع تھا اور حضرت زبیر کا کام بھی چل رہا تھا لیکن جس وقت انصاری نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ناراض کر دیا تو آپ نے حضرت زبیر کو واضح حکم جاری فرما کر پورا حق دلوایا۔ حضرت زبیر نے فرمایا میری رائے ہے کہ یہ آیت کریمہ" فَلَا وَرَبِّکَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّی يُحَکِّمُوکَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ " اسی سلسلہ میں نازل ہوئی تیرے پروردگار کی قسم! وہ لوگ کبھی مسلمان نہیں ہوں گے جس وقت تک کہ اپنے جھگڑوں میں تمہاری حکومت قبول نہ کر لیں پھر تم جو حکم دو اس سے دل تنگ نہ ہوں (اور بلا عذر اس کو تسلیم کر لیں) اس حدیث شریف کے دو راوی ہیں ایک نے دوسرے سے زیادہ واقعہ نقل کیا ہے۔
It was narrated from Abu Hurairah and Zaid bin Khalid Al Juhanl that two men referred a dispute to the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم . One of them said: “Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم, pass judgment between us according to the Book of Allah.” The other, who was Wiser, said: “Yes, Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم, and allow me to speak.” He said: “My son was a laborer serving this man, and he committed Zina with his wife. They told me that my son was to be stoned to death, but I ransomed him with one hundred sheep and a slave girl of mine. Then I asked the people of knowledge, who told me that my son was to be given one hundred lashes and exiled for a year, and that his (the man’s) wife was to be stoned to death.” The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم said: “By the One in Whose hand is my soul, I will pass judgment between you according to the Book of Allah. As for your sheep and your slave girl, take them back.” Then he gave his son one hundred lashes, and exiled him for one year, and he ordered Unais to go to the wife of the other man and if she confessed, to stone her to death. She did confess, so he stoned her to death. (Sahih)