جب کوئی حاکم ناحق فیصلہ کر دے تو اس کو رد کرنا صحیح ہے
راوی: زکریا بن یحیی , عبدالاعلی بن حماد , بشر بن سری , عبداللہ بن مبارک , معمر , احمد بن علی بن سعید , یحیی بن معین , ہشام بن یوسف و عبدالرزاق , معمر , زہری , سالم , عبداللہ بن عمر
أَخْبَرَنَا زَکَرِيَّا بْنُ يَحْيَی قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی بْنُ حَمَّادٍ قَالَ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ مَعْمَرٍ ح وَأَنْبَأَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مَعِينٍ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ إِلَی بَنِي جَذِيمَةَ فَدَعَاهُمْ إِلَی الْإِسْلَامِ فَلَمْ يُحْسِنُوا أَنْ يَقُولُوا أَسْلَمْنَا فَجَعَلُوا يَقُولُونَ صَبَأْنَا وَجَعَلَ خَالِدٌ قَتْلًا وَأَسْرًا قَالَ فَدَفَعَ إِلَی کُلِّ رَجُلٍ أَسِيرَهُ حَتَّی إِذَا أَصْبَحَ يَوْمُنَا أَمَرَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ أَنْ يَقْتُلَ کُلُّ رَجُلٍ مِنَّا أَسِيرَهُ قَالَ ابْنُ عُمَرَ فَقُلْتُ وَاللَّهِ لَا أَقْتُلُ أَسِيرِي وَلَا يَقْتُلُ أَحَدٌ وَقَالَ بِشْرٌ مِنْ أَصْحَابِي أَسِيرَهُ قَالَ فَقَدِمْنَا عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذُکِرَ لَهُ صُنْعُ خَالِدٍ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَبْرَأُ إِلَيْکَ مِمَّا صَنَعَ خَالِدٌ قَالَ زَکَرِيَّا فِي حَدِيثِهِ فَذُکِرَ وَفِي حَدِيثِ بِشْرٍ فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنِّي أَبْرَأُ إِلَيْکَ مِمَّا صَنَعَ خَالِدٌ مَرَّتَيْنِ
زکریا بن یحیی، عبدالاعلی بن حماد، بشر بن سری، عبداللہ بن مبارک، معمر، احمد بن علی بن سعید، یحیی بن معین، ہشام بن یوسف و عبدالرزاق، معمر، زہری، سالم، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید کو (قبیلہ) بنی جذیمہ کی خدمت میں بھیجا انہوں نے ان کو اسلام کی جانب بلایا لیکن وہ اچھی طرح سے یہ نہ کہہ سکے کہ ہم مسلمان ہو گئے اور کہنے لگے ہم نے اپنا دین چھوڑ دیا۔ حضرت خالد نے ان کو قتل کرنا اور قید کرنا شروع کر دیا پھر ہر ایک شخص کو اس کا قیدی دے دیا گیا۔ جس وقت صبح ہوگئی تو خالد نے ہر ایک شخص کو اپنے قیدی کے قتل کرنے کا حکم دیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا اللہ کی قسم میں اپنے قیدی کو قتل نہیں کروں گا اور نہ کوئی میرے لوگوں میں سے قیدی کو قتل کرے گا۔ تو حضرت خالد کے حکم کو جو کہ ایک ناحق حکم تھا اس کو رد کر دیا جس وقت ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا جو حضرت خالد نے کیا تھا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور فرمایا یا اللہ! میں علیحدہ ہوں اس کام سے جو خالد نے کیا دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسری مرتبہ یہی فرمایا۔
It was narrated from ‘Abdullah bin Ka’b, from his father, that he asked Ibn Abi Uadrad to pay off a debt that he owed him. Their voices grew so loud that the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم heard them when he was inside his house. He came out to them, drew back the curtain of his room and called out: “Ka’b!” He said: “Here I am, Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.” He said: “Drop his debt to half.” He said: “I will do that.” He said (to the debtor): “Go and pay it off.” (Sahih)