مال نذر کرتے وقت اس میں زمین بھی داخل ہے یا نہیں؟
راوی: حارث بن مسکین , ابن قاسم , مالک , ثور بن زید , ابوالغیث مولی ابن مطیع , ابوہریرہ
قَالَ الْحَارِثُ بْنُ مِسْکِينٍ قِرَائَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِکٌ عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَبِي الْغَيْثِ مَوْلَی ابْنِ مُطِيعٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ خَيْبَرَ فَلَمْ نَغْنَمْ إِلَّا الْأَمْوَالَ وَالْمَتَاعَ وَالثِّيَابَ فَأَهْدَی رَجُلٌ مِنْ بَنِي الضُّبَيْبِ يُقَالُ لَهُ رِفَاعَةُ بْنُ زَيْدٍ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُلَامًا أَسْوَدَ يُقَالُ لَهُ مِدْعَمٌ فَوُجِّهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَی وَادِي الْقُرَی حَتَّی إِذَا کُنَّا بِوَادِي الْقُرَی بَيْنَا مِدْعَمٌ يَحُطُّ رَحْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَائَهُ سَهْمٌ فَأَصَابَهُ فَقَتَلَهُ فَقَالَ النَّاسُ هَنِيئًا لَکَ الْجَنَّةُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَلَّا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ الشَّمْلَةَ الَّتِي أَخَذَهَا يَوْمَ خَيْبَرَ مِنْ الْمَغَانِمِ لَتَشْتَعِلُ عَلَيْهِ نَارًا فَلَمَّا سَمِعَ النَّاسُ بِذَلِکَ جَائَ رَجُلٌ بِشِرَاکٍ أَوْ بِشِرَاکَيْنِ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شِرَاکٌ أَوْ شِرَاکَانِ مِنْ نَارٍ
حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک،ثور بن زید، ابوالغیث مولیٰ ابن مطیع، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت ہے کہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے کہ خیبر والے سال میں ہم کو وہاں پر لوٹ حاصل نہ ہوئی یعنی سامان اور کپڑے ہمارے ہاتھ نہ آئے تو ایک شخص نے غلام دیا جس کا نام رفاعہ بن زید تھا اور وہ شخص قبیلہ ضبیب سے تھا اس نے ایک حبشی غلام دیا اس غلام کو مرغم کہا جاتا تھا پھر وہاں سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وادی القری کی جانب متوجہ ہوئے جس وقت ہم لوگ وادی القری پہنچے تو اچانک اس غلام کے بے خبری میں ایک تیر آکر لگا اور اس تیر نے اس غلام کو ختم کر دیا اور اس غلام کے وہ تیر ایسی حالت میں لگا کہ جس وقت کہ وہ غلام (مد عم) رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سامان اتار رہا تھا۔ لوگ عرض کرنے لگے کہ تم کو جنت مبارک ہو یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہرگز یہ بات نہیں ہوئی یعنی جنت کا مل جانا خیر ہے۔ اس پروردگار کی قسم! کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ کملی (چادر) جو اس نے لی تھی خیبر والے دن لوٹ اور مال غنیمت میں سے جب کہ مال تقسیم نہیں ہوا تھا (یعنی تقسیم سے قبل جو چیز اس نے لی تھی) اس کی وجہ سے اس پر دوزخ کی آگ شعلے مارے گی اور اس پر آگ بر سے گی جب لوگوں نے یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی تو اس وقت ایک شخص چمڑے کی ایک یا دو دوالین (تسمے) لے کر حاضر ہوا اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا چمڑے کی جو ایک یا دو دوالین ہیں وہ آگ ہیں۔
It was narrated that Abu Hurairah said: “We wete with the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم in the year of Khaibar and we did not get any spoils of wat except for wealth, goods and clothes. Then a man from Banu Ad-Dhuaib who was called Rifa’ah bin Zaid, gave the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم a black slave who was called Midam. The Messerigei of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم set out for Wadi Al-Qura. When we were in Wadi Al Qura, while Midas was unloading the Iuggage of the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم, an arrow came and killed him. The people said: Congratulations! You will go to Paradise,’ but the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم said: No, by the One in Whose hand Is my soul! ‘The cloak that he took front the spoils of war on the clay of Khaibar is burning him with fire.’ When the people heard that, a man brought one or two shoelaces to the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم and the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم said: One or two shoelaces of fire.” (Sahih)