ایمان اور اسلام کی صفت
راوی: محمد بن قدامة , جریر , ابوفروة , ابوزرعة , ابوہریرہ
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ عَنْ جَرِيرٍ عَنْ أَبِي فَرْوَةَ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَأَبِي ذَرٍّ قَالَا کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْلِسُ بَيْنَ ظَهْرَانَيْ أَصْحَابِهِ فَيَجِيئُ الْغَرِيبُ فَلَا يَدْرِي أَيُّهُمْ هُوَ حَتَّی يَسْأَلَ فَطَلَبْنَا إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَجْعَلَ لَهُ مَجْلِسًا يَعْرِفُهُ الْغَرِيبُ إِذَا أَتَاهُ فَبَنَيْنَا لَهُ دُکَّانًا مِنْ طِينٍ کَانَ يَجْلِسُ عَلَيْهِ وَإِنَّا لَجُلُوسٌ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَجْلِسِهِ إِذْ أَقْبَلَ رَجُلٌ أَحْسَنُ النَّاسِ وَجْهًا وَأَطْيَبُ النَّاسِ رِيحًا کَأَنَّ ثِيَابَهُ لَمْ يَمَسَّهَا دَنَسٌ حَتَّی سَلَّمَ فِي طَرَفِ الْبِسَاطِ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْکَ يَا مُحَمَّدُ فَرَدَّ عَلَيْهِ السَّلَامُ قَالَ أَدْنُو يَا مُحَمَّدُ قَالَ ادْنُهْ فَمَا زَالَ يَقُولُ أَدْنُو مِرَارًا وَيَقُولُ لَهُ ادْنُ حَتَّی وَضَعَ يَدَهُ عَلَی رُکْبَتَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِي مَا الْإِسْلَامُ قَالَ الْإِسْلَامُ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ وَلَا تُشْرِکَ بِهِ شَيْئًا وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ وَتُؤْتِيَ الزَّکَاةَ وَتَحُجَّ الْبَيْتَ وَتَصُومَ رَمَضَانَ قَالَ إِذَا فَعَلْتُ ذَلِکَ فَقَدْ أَسْلَمْتُ قَالَ نَعَمْ قَالَ صَدَقْتَ فَلَمَّا سَمِعْنَا قَوْلَ الرَّجُلِ صَدَقْتَ أَنْکَرْنَاهُ قَالَ يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِي مَا الْإِيمَانُ قَالَ الْإِيمَانُ بِاللَّهِ وَمَلَائِکَتِهِ وَالْکِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَتُؤْمِنُ بِالْقَدَرِ قَالَ فَإِذَا فَعَلْتُ ذَلِکَ فَقَدْ آمَنْتُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَمْ قَالَ صَدَقْتَ قَالَ يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِي مَا الْإِحْسَانُ قَالَ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ کَأَنَّکَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاکَ قَالَ صَدَقْتَ قَالَ يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِي مَتَی السَّاعَةُ قَالَ فَنَکَسَ فَلَمْ يُجِبْهُ شَيْئًا ثُمَّ أَعَادَ فَلَمْ يُجِبْهُ شَيْئًا ثُمَّ أَعَادَ فَلَمْ يُجِبْهُ شَيْئًا وَرَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنْ السَّائِلِ وَلَکِنْ لَهَا عَلَامَاتٌ تُعْرَفُ بِهَا إِذَا رَأَيْتَ الرِّعَائَ الْبُهُمَ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ وَرَأَيْتَ الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ مُلُوکَ الْأَرْضِ وَرَأَيْتَ الْمَرْأَةَ تَلِدُ رَبَّهَا خَمْسٌ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ إِلَی قَوْلِهِ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ثُمَّ قَالَ لَا وَالَّذِي بَعَثَ مُحَمَّدًا بِالْحَقِّ هُدًی وَبَشِيرًا مَا کُنْتُ بِأَعْلَمَ بِهِ مِنْ رَجُلٍ مِنْکُمْ وَإِنَّهُ لَجِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام نَزَلَ فِي صُورَةِ دِحْيَةَ الْکَلْبِيِّ
محمد بن قدامہ، جریر، ابوفروة، ابوزرعة، ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ کرام کے درمیان تشریف فرما ہوتے پھر جو کوئی نیا شخص آتا وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہچان نہ سکتا۔ جس وقت تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نہ پوچھتا۔ اس وجہ سے ہم لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے چاہا کہ بیٹھنے کے واسطے ایک جگہ بنائی جائے کہ نیا آدمی آتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہچان لے پھر ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے ایک اونچا چبوترہ مٹی سے بنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر تشریف فرما ہوتے۔ ایک دن ہم تمام لوگ بیٹھے ہوئے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اپنی جگہ تشریف فرما تھے اس دوران ایک آدمی حاضر ہوا کہ جس کا منہ (یعنی چہرہ) تمام لوگوں سے اچھا تھا اور جس کے جسم کی خوشبو سب سے بہتر تھی اور اس کے کپڑوں (یعنی لباس) میں کچھ بھی میل نہیں تھا اس نے فرش کے کنارے سے سلام کیا اور اس نے کہا السلام علیک یا محمد! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا آجا۔ وہ قرب آنے کی اجازت طلب کرتا رہا یہاں تک کہ اس نے اپنے ہاتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھٹنوں پر رکھ دئیے اور کہا اے محمد! مجھ کو بتلا کہ اسلام کس کو کہتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اسلام یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک نہ کرو اور نماز ادا کرو زکوة دو اور حج کرو بیت اللہ شریف کا اور رمضان المبارک کے روزے رکھو۔ اس نے عرض کیا جس وقت میں یہ تمام باتیں کر لوں تو مسلمان ہو جاؤں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جی ہاں! اس شخص نے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سچ فرمایا جس وقت ہم نے یہ بات سنی کہ وہ شخص کہہ رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سچ فرمایا تو ہم کو اس کی یہ بات بری لگی کیونکہ قصدا کیوں معلوم کرتا ہے۔ پھر وہ کہنے لگا اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! بتلا کہ ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ پر یقین کرنا اور اس کے فرشتوں اور کتابوں پر اور رسولوں پر اور یقین کرنا تقدیر پر۔ اس نے کہا کہ جس وقت میں ایسا کروں تو میں مومن ہو جاؤں گا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جی ہاں۔ پھر اس نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سچ فرمایا پھر اس نے کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! بتلا کہ احسان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم اللہ تعالیٰ کی اس طریقہ سے عبادت کرو جیسے کہ تم اس کو دیکھ رہے ہو اگر اس طرح سے عبادت نہ کر سکو تو (کم از کم) اس طرح عبادت کرو کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔ اس شخص نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سچ فرمایا پھر وہ شخص کہنے لگا اے محمد! مجھ کو بتلا کہ قیامت کب قائم ہوگی؟ یہ بات سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر (مبارک) جھکا لیا اور کوئی جواب نہیں دیا۔ اس نے پھر سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی قسم کا کوئی جواب نہیں دیا اور سر اٹھایا پھر فرمایا جس سے تم دریافت کر رہے ہو وہ سوال کرنے والے سے زیادہ علم نہیں رکھتے۔ لیکن قیامت کی علامت یہ ہیں جس وقت تو مجہول جانور چرانے والوں کو دیکھے کہ وہ لوگ بڑی بڑی عمارتیں بنا رہے ہیں اور جو لوگ اب ننگے پاؤں اور ننگے جسم پھرتے ہیں ان کو زمین کا بادشاہ دیکھے اور عورت کو دیکھے وہ اپنے مالک کو جنتی ہے تم سمجھ لو کہ قیامت قریب ہے۔ پانچ اشیاء ہیں کہ جن کا کہ کسی کو کوئی علم نہیں ہے علاوہ اللہ تعالیٰ کے۔ پھر یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم کہ جس نے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سچا (نبی) بنا کر بھیجا ہے اور وہ کھانے والا اور خوش خبری دینے والا میں اس شخص کو تم سے زیادہ نہیں پہچانتا تھا اور بلاشبہ یہ حضرت جبرائیل تھے جو کہ دحیہ کلبی کی شکل میں تشریف لائے تھے۔
It was narrated from Bishr bin Suhaim that the Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم commanded him to call out on the days of At-Tashriq that no one would enter Paradise except a believer, and that these were the days of eating and drinking. (Sahih)