حضرت علقمہ بن وائل کی روایت میں راویوں کا اختلاف
راوی: اسماعیل بن مسعود , خالد , حاتم , سماک , علقمہ بن وائل
أَخْبَرَنَا زَکَرِيَّا بْنُ يَحْيَی قَالَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو يُونُسَ عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ أَنَّ عَلْقَمَةَ بْنَ وَائِلٍ حَدَّثَهُ أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ قَالَ إِنِّي لَقَاعِدٌ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَائَ رَجُلٌ يَقُودُ آخَرَ نَحْوَهُ
اسماعیل بن مسعود، خالد، حاتم، سماک، علقمہ بن وائل سے روایت ہے کہ ان کے والد (وائل) رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اس دوران ایک شخص آیا۔ ایک دوسرے شخص کو کھینچتا ہوا رسی پکڑ کر انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس نے میرے بھائی کو مار ڈالا ہے۔ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے دریافت کیا کہ کیا تم نے اس کو قتل کیا ہے؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر یہ اقرار نہ کرتا تو میں گواہ لاتا۔ اس دوران اس نے کہا میں نے قتل کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کس طریقہ سے مارا اور قتل کیا ہے۔ اس نے کہا میں اور اس کا بھائی دونوں لکڑیاں اکھٹی کر رہے تھے ایک درخت کے نیچے اس دوران اس نے مجھ کو گالی دی مجھ کو غصہ آیا میں نے کلہاڑی اس کے سر پر ماری (وہ مر گیا) اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تمہارے پاس مال ہے جو کہ تم اپنی جان کے عوض ادا کرو۔ اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تو کچھ نہیں ہے علاوہ اس کمبل اور کلہاڑی کے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تو سمجھتا ہے کہ تمہاری قوم تجھ کو خرید کر لے گی۔ (یعنی دیت ادا کرے) وہ کہنے لگا میں اپنی قوم کے نزدیک زیادہ ذلیل اور رسوا ہوں دولت سے (یعنی میری جان کی ان کو اس قدر پرواہ نہیں ہے کہ مال ادا کریں) یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رسی اس شخص کی جانب (یعنی وارث کی جانب پھینک دی) اور فرمایا تم اس کو لے جاؤ یعنی جو تمہارا دل چاہے وہ کرو۔ جس وقت وہ شخص پشت کر کے روانہ ہوا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر تم اس کو قتل کر دو گے تو یہ بھی اسی جیسا ہوگا لوگ جا کر اس سے ملے اور کہا تیری خرابی ہو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں اگر تم اس کو قتل کر دو گے تو تمہارا انجام اسی شخص جیسا ہوگا وہ شخص واپس خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پھر حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں نے مجھ کو اس طریقہ سے کہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر میں اس کو قتل کر دوں تو اسی جیسا ہوں گا اور میں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے حکم سے اس کو لے کر گیا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم چاہتے ہو کہ وہ تمہارا اور تمہارے ساتھی (یعنی مقتول کا) گناہ جمع کر لے گا۔ اس نے کہا کس وجہ سے نہیں چاہتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہی بات ہوگی۔ اس نے کہا پھر اسی طرح سے صحیح ہے (میں اس کو چھوڑتا ہوں)
It was narrated from Anas bin Malik that a man brought the killer of his kinsman to the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم and the Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم said: “Forgive him.” But he refused. He said: “Take the Diyah,” but he refused. He said: “Go and kill him then, for you are just like him.” So he went away, but some people caught up with the man and told him that the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم had said: “Kill him for you are just like him.” So he let him go, and the man passed by me dragging his string.(Sahih)