دور جاہلیت کی قسامت سے متعلق
راوی: محمد بن یحیی ابومعمر , عبدالوارث , قطن ابوہشیم , ابویزید مدنی , عکرمة , ابن عباس
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ قَالَ حَدَّثَنَا قَطَنٌ أَبُو الْهَيْثَمِ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو يَزِيدَ الْمَدَنِيُّ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَوَّلُ قَسَامَةٍ کَانَتْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ کَانَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ اسْتَأْجَرَ رَجُلًا مِنْ قُرَيْشٍ مِنْ فَخِذِ أَحَدِهِمْ قَالَ فَانْطَلَقَ مَعَهُ فِي إِبِلِهِ فَمَرَّ بِهِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ قَدْ انْقَطَعَتْ عُرْوَةُ جُوَالِقِهِ فَقَالَ أَغِثْنِي بِعِقَالٍ أَشُدُّ بِهِ عُرْوَةَ جُوَالِقِي لَا تَنْفِرُ الْإِبِلُ فَأَعْطَاهُ عِقَالًا يَشُدُّ بِهِ عُرْوَةَ جُوَالِقِهِ فَلَمَّا نَزَلُوا وَعُقِلَتْ الْإِبِلُ إِلَّا بَعِيرًا وَاحِدًا فَقَالَ الَّذِي اسْتَأْجَرَهُ مَا شَأْنُ هَذَا الْبَعِيرِ لَمْ يُعْقَلْ مِنْ بَيْنِ الْإِبِلِ قَالَ لَيْسَ لَهُ عِقَالٌ قَالَ فَأَيْنَ عِقَالُهُ قَالَ مَرَّ بِي رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ قَدْ انْقَطَعَتْ عُرْوَةُ جُوَالِقِهِ فَاسْتَغَاثَنِي فَقَالَ أَغِثْنِي بِعِقَالٍ أَشُدُّ بِهِ عُرْوَةَ جُوَالِقِي لَا تَنْفِرُ الْإِبِلُ فَأَعْطَيْتُهُ عِقَالًا فَحَذَفَهُ بِعَصًا کَانَ فِيهَا أَجَلُهُ فَمَرَّ بِهِ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ فَقَالَ أَتَشْهَدُ الْمَوْسِمَ قَالَ مَا أَشْهَدُ وَرُبَّمَا شَهِدْتُ قَالَ هَلْ أَنْتَ مُبَلِّغٌ عَنِّي رِسَالَةً مَرَّةً مِنْ الدَّهْرِ قَالَ نَعَمْ قَالَ إِذَا شَهِدْتَ الْمَوْسِمَ فَنَادِ يَا آلَ قُرَيْشٍ فَإِذَا أَجَابُوکَ فَنَادِ يَا آلَ هَاشِمٍ فَإِذَا أَجَابُوکَ فَسَلْ عَنْ أَبِي طَالِبٍ فَأَخْبِرْهُ أَنَّ فُلَانًا قَتَلَنِي فِي عِقَالٍ وَمَاتَ الْمُسْتَأْجَرُ فَلَمَّا قَدِمَ الَّذِي اسْتَأْجَرَهُ أَتَاهُ أَبُو طَالِبٍ فَقَالَ مَا فَعَلَ صَاحِبُنَا قَالَ مَرِضَ فَأَحْسَنْتُ الْقِيَامَ عَلَيْهِ ثُمَّ مَاتَ فَنَزَلْتُ فَدَفَنْتُهُ فَقَالَ کَانَ ذَا أَهْلَ ذَاکَ مِنْکَ فَمَکُثَ حِينًا ثُمَّ إِنَّ الرَّجُلَ الْيَمَانِيَّ الَّذِي کَانَ أَوْصَی إِلَيْهِ أَنْ يُبَلِّغَ عَنْهُ وَافَی الْمَوْسِمَ قَالَ يَا آلَ قُرَيْشٍ قَالُوا هَذِهِ قُرَيْشٌ قَالَ يَا آلَ بَنِي هَاشِمٍ قَالُوا هَذِهِ بَنُو هَاشِمٍ قَالَ أَيْنَ أَبُو طَالِبٍ قَالَ هَذَا أَبُو طَالِبٍ قَالَ أَمَرَنِي فُلَانٌ أَنْ أُبَلِّغَکَ رِسَالَةً أَنَّ فُلَانًا قَتَلَهُ فِي عِقَالٍ فَأَتَاهُ أَبُو طَالِبٍ فَقَالَ اخْتَرْ مِنَّا إِحْدَی ثَلَاثٍ إِنْ شِئْتَ أَنْ تُؤَدِّيَ مِائَةً مِنْ الْإِبِلِ فَإِنَّکَ قَتَلْتَ صَاحِبَنَا خَطَأً وَإِنْ شِئْتَ يَحْلِفْ خَمْسُونَ مِنْ قَوْمِکَ أَنَّکَ لَمْ تَقْتُلْهُ فَإِنْ أَبَيْتَ قَتَلْنَاکَ بِهِ فَأَتَی قَوْمَهُ فَذَکَرَ ذَلِکَ لَهُمْ فَقَالُوا نَحْلِفُ فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ کَانَتْ تَحْتَ رَجُلٍ مِنْهُمْ قَدْ وَلَدَتْ لَهُ فَقَالَتْ يَا أَبَا طَالِبٍ أُحِبُّ أَنْ تُجِيزَ ابْنِي هَذَا بِرَجُلٍ مِنْ الْخَمْسِينَ وَلَا تُصْبِرْ يَمِينَهُ فَفَعَلَ فَأَتَاهُ رَجُلٌ مِنْهُمْ فَقَالَ يَا أَبَا طَالِبٍ أَرَدْتَ خَمْسِينَ رَجُلًا أَنْ يَحْلِفُوا مَکَانَ مِائَةٍ مِنْ الْإِبِلِ يُصِيبُ کُلَّ رَجُلٍ بَعِيرَانِ فَهَذَانِ بَعِيرَانِ فَاقْبَلْهُمَا عَنِّي وَلَا تُصْبِرْ يَمِينِي حَيْثُ تُصْبَرُ الْأَيْمَانُ فَقَبِلَهُمَا وَجَائَ ثَمَانِيَةٌ وَأَرْبَعُونَ رَجُلًا حَلَفُوا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا حَالَ الْحَوْلُ وَمِنْ الثَّمَانِيَةِ وَالْأَرْبَعِينَ عَيْنٌ تَطْرِفُ
محمد بن یحیی ابومعمر، عبدالوارث، قطن ابوہشیم، ابویزید مدنی، عکرمة، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ دور جاہلیت میں جو پہلی قسامت جاری ہوئی (وہ یہ تھی کہ قبیلہ) بنی ہاشم میں سے ایک آدمی نے قریش کے ایک آدمی کی ملازمت کی یعنی قبیلہ قریش کی ایک شاخ میں سے وہ شخص تھا وہ اس کے ساتھ اونٹوں میں گیا وہاں پر ایک شخص ملا جو کہ قبیلہ بنی ہاشم میں سے تھا جس کے برتن کی رسی ٹوٹ گئی تھی۔ اس نے کہا تم رسی سے میری مدد کرو تاکہ میں اپنے برتن کو باندھ لوں ایسا نہ ہو کہ اونٹ چلنے لگ جائے (اور برتن نیچے گر جائے) چنانچہ اس قبیلہ بنی ہاشم کے شخص نے ایک رسی دے دی برتن باندھنے کے واسطے۔ جس وقت تمام لوگ نیچے اترے اور وہ اونٹ باندھنے لگے تو ایک اونٹ خالی رہا (اس کے باندھنے کے واسطے رسی نہیں تھی) جس نے ملازم رکھا تھا اس نے کہا کہ یہ کیسا اونٹ ہے یہ اونٹ کیوں نہیں باندھا گیا؟ نوکر نے کہا اس کی رسی نہیں ہے۔ اس نے کہا رسی کہاں چلی گئی ہے۔ نوکر نے کہا مجھے ایک شخص ملا قبیلہ بنی ہاشم میں سے کہ جس کے برتن کی رسی ٹوٹ گئی تھی اس شخص نے فریاد کی اور کہا کہ تم میری مدد کرو ایک رسی دو کہ جس سے میں اپنا برتن باندھ لوں۔ یہ بات پیش نہ آجائے کہ اونٹ روانہ ہو جائے تو میں نے باندھنے کی رسی اس کو دے دی۔ یہ بات سنتے ہی اس نے ایک لاٹھی نوکر کے ماری جس کی وجہ سے وہ مر گیا۔ وہاں پر ایک شخص آیا یمن کے لوگوں میں سے تو اس شخص نے (یعنی اس ملازم نے) اس سے دریافت کیا تم اس موسم میں مکہ مکرمہ جاؤ گے؟ اس شخص نے کہا میں نہیں جاؤں گا اور ہو سکتا ہے کہ میں جاؤں۔ اس نوکر نے کہا میری جانب سے تم ایک پیغام پہنچا دو گے جس وقت کہ تم پہنچو۔ اس شخص نے کہا جی ہاں۔ اس پر ملازم نے کہا جس وقت تم موسم (موسم سے مراد حج ہے) میں جاؤ گے تو تم پکارو کہ اے اہل قریش! جس وقت وہ جواب دیں تو تم پکارو اور آواز دو کہ اے ہاشم کی اولاد۔ جس وقت وہ جواب دیں تو تم ابوطالب پوچھو کہ پھر ان سے کہہ دو کہ فلاں نے (اس کا نام لیا کہ جس شخص نے اس کو ملازم رکھا تھا) مجھے ایک رسی کے واسطے مار ڈالا۔ پھر اس نوکر کا انتقال ہوگیا۔ جس وقت وہ شخص کہ جس نے کہ نوکر رکھا تھا مکہ مکرمہ میں آیا تو ابوطالب نے اس سے دریافت کیا ہم لوگوں کا آدمی کس جگہ گیا۔ اس نے کہا میں نے اس کی اچھی طرح سے خدمت کی پھر وہ شخص مر گیا تو میں راستہ میں اتر گیا اور اس کو دفن کیا۔ ابوطالب نے کہا اس کے لئے یہی شایان شان تھا (یعنی تم سے اسی بات کی امید تھی جو تم نے کیا یعنی خبر گیری کی اور اچھی طرح سے دفن کیا) پھر ابوطالب چند دن ٹھہرے کہ اس دوران وہ یمن کا باشندہ آگیا کہ جس نے وصیت کی تھی پیغام پہنچانے کے واسطے اور عین موسم پر آیا۔ اس شخص نے آواز دی کہ اے قریش کے لوگو! لوگوں نے کہا کہ یہ ہاشم کے صاحبزادے ہیں۔ اس نے کہا ابوطالب کہاں ہیں؟ جب اس نے ابوطالب سے کہا فلاں آدمی نے میرے ہاتھ یہ پیغام بھیجا تھا کہ فلاں آدمی نے اس کو قتل کر ڈالا ایک رسی کے واسطے۔ یہ بات سن کر ابوطالب اس شخص کے پاس پہنچے اور کہا تین باتوں میں سے ایک بات تم کرو اگر تمہارا دل چاہے تو ایک سو اونٹ دے دو دیت کے۔ کیونکہ تم نے ہمارے آدمی جو غلطی سے مار دیا (یعنی تمہارا ارادہ قتل کرنے کا نہیں تھا) اور اگر تمہارا دل چاہے تو تمہاری قوم میں سے پچاس آدمی قسم کھائیں اس بات پر کہ تو نے اس کو نہیں مارا۔ اگر تم ان دونوں باتوں سے انکار کرو تو ہم تجھ کو اس کے بدلے قتل کر دیں گے۔ اس نے اپنی قوم سے بیان کیا انہوں نے کہا ہم قسم کھائیں گے۔ پھر ایک عورت آئی ابوطالب کے پاس جس کی اس کی قوم میں شادی ہوئی تھی اور وہ بنی ہاشم میں سے اس کا ایک لڑکا تھا اس نے کہا اے ابوطالب میں چاہتی ہوں کہ تم اس لڑکے کو منظور کر لو۔ پچاس آدمیوں میں سے ایک کے عوض اور اس کی قسم نہ دلواؤ۔ ابوطالب نے منظور کیا پھر ایک شخص ان میں سے آیا اور کہنے لگا کہ اے ابوطالب تم پچاس آدمیوں کی قسم دلانا چاہتے ہو ایک سو اونٹ کے عوض تو ہر ایک شخص کے حصہ میں دو دو اونٹ آگئے تم دو اونٹ لے لو اور منظور کرلو میرے اوپر تم قسم نہ ڈالو (یعنی قسم مجھ پر لازم نہ کرو) تم جس وقت زبردستی قسمیں دو گے۔ ابوطالب نے یہ بات منظور کرلی اور اڑتالیس آدمی آئے انہوں نے قسم کھائی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا اللہ کی قسم کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ایک سال نہیں گزرا کہ ان اڑتالیس لوگوں میں سے ایک آنکھ بھی باقی نہیں رہی جو کہ (حالات) دیکھتی ہو (یعنی سب ہی مر چکے)۔
It was narrated from Abu Salamah and Sulaiman bin Yasar, from some of the Companions of the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم that Qasamah existed during the Jahiliyyah and the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم approved of it as it had been during the Jahii and he ruled accordingly among some of the Ansar concerning a victim whom they claimed the Jews of Khaibar had killed. (Sahih) Ma’mar contradicted the two of them.