جس شخص کے پاس دولت نہ ہو لیکن اس قدر مالیت کی اشیاء موجود ہوں
راوی: حارث بن مسکین , ابن قاسم , مالک , زید بن اسلم , عطاء بن یسار قبیلہ بنو اسد
قَالَ الْحَارِثُ بْنُ مِسْکِينٍ قِرَائَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ قَالَ أَنْبَأَنَا مَالِکٌ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَائِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي أَسَدٍ قَالَ نَزَلْتُ أَنَا وَأَهْلِي بِبَقِيعِ الْغَرْقَدِ فَقَالَتْ لِي أَهْلِي اذْهَبْ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلْهُ لَنَا شَيْئًا نَأْکُلُهُ فَذَهَبْتُ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدْتُ عِنْدَهُ رَجُلًا يَسْأَلُهُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا أَجِدُ مَا أُعْطِيکَ فَوَلَّی الرَّجُلُ عَنْهُ وَهُوَ مُغْضَبٌ وَهُوَ يَقُولُ لَعَمْرِي إِنَّکَ لَتُعْطِي مَنْ شِئْتَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ لَيَغْضَبُ عَلَيَّ أَنْ لَا أَجِدَ مَا أُعْطِيهِ مَنْ سَأَلَ مِنْکُمْ وَلَهُ أُوقِيَّةٌ أَوْ عِدْلُهَا فَقَدْ سَأَلَ إِلْحَافًا قَالَ الْأَسَدِيُّ فَقُلْتُ لَلَقْحَةٌ لَنَا خَيْرٌ مِنْ أُوقِيَّةٍ وَالْأُوقِيَّةُ أَرْبَعُونَ دِرْهَمًا فَرَجَعْتُ وَلَمْ أَسْأَلْهُ فَقَدِمَ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذَلِکَ شَعِيرٌ وَزَبِيبٌ فَقَسَّمَ لَنَا مِنْهُ حَتَّی أَغْنَانَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ
حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، زید بن اسلم، عطاء بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ قبیلہ بنو اسد کے ایک آدمی سے نقل کرتے ہیں۔ انہوں نے ارشاد فرمایا کہ میں اور میرے گھر والے بقیع (قبرستان) گئے تو میری اہلیہ نے مجھ سے بیان کیا کہ تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاؤ اور تم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ کھانے کے واسطے مانگ لاؤ چنانچہ میں خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوا۔ (میں نے دیکھا کہ) وہاں پر ایک دوسرے صاحب بھی موجود تھے جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ مانگ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میرے پاس تم کو دینے کے واسطے کچھ نہیں ہے۔ اس پر وہ آدمی رخ بدل کر جانے لگا اور یہ کہتا ہوا چل دیا کہ اس ذات کی قسم کہ جس نے مجھ کو زندگی بخشی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی کو (صدقہ) دیتے ہیں جس کو چاہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ شخص اس بات پر ناراض ہورہا ہے کہ میرے پاس اس کو دینے کے واسطے کچھ موجود نہیں۔ اگر تم میں سے کوئی آدمی ایک اوقیہ یا اس مالیت کی چیز کا مالک ہونے کے باوجود سوال کرتا ہے تو یہ ناجائز ہے اسدی بیان کرتے ہیں کہ مجھ کو خیال ہوا کہ میرے پاس تو ایک اونٹ موجود ہے جو کہ اوقیہ سے بہتر ہے اور ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے چنانچہ میں واپس ہوگیا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ نہیں مانگا۔ پھر خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جو اور خشک انگور پیش کئے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس میں سے حصہ عنایت فرمایا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو مستغنی فرما دیا (یعنی مانگنے کی ضرورت نہ رہی)۔
It was narrated from ‘Ata’ bin Yasar that a man from Banu Asad said: “My wife and I stopped at Baqi’ Al-Gharqad, and my wife said to me: ‘Go to the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم and ask him to give us something to eat.’ So I went to the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم and found a man with him asking him (for something), and the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم was saying: ‘I do not have anything to give to you.’ The man turned away angrily, saying: ‘You only give to those you want.’ The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم said: ‘He is angry with me because I did not have anything to give him. Whoever asks of you and he has an Uqiyah or its equivalent, then he has been too demanding in asking.” Al-Asadl said: I said: ‘Our much-camel is worth more than an Uqiyah,’ and an Uqiyah is forty Dirhams. “So I went back and did not ask him for anything. Then the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم got some barley and raisins after that, and he gave us a share of them, until Allah, the Mighty and Sublime, made us independent of means.” (Sahih)