اگر کوئی شخص اچانک مر جائے تو کیا اس کے وارثوں کے واسطے اس کی جانب سے صدقہ کرنا مستحب ہے یا نہیں؟
راوی: حارث بن مسکین , ابن قاسم , مالک , سعید بن عمرو بن شرجیل بن سعید بن سعد , ابیہ , جدہ , سعد بن عبادہ
أَنْبَأَنَا الْحَارِثُ بْنُ مِسْکِينٍ قِرَائَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ عَنْ مَالِکٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِيلَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ خَرَجَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ مَغَازِيهِ وَحَضَرَتْ أُمَّهُ الْوَفَاةُ بِالْمَدِينَةِ فَقِيلَ لَهَا أَوْصِي فَقَالَتْ فِيمَ أُوصِي الْمَالُ مَالُ سَعْدٍ فَتُوُفِّيَتْ قَبْلَ أَنْ يَقْدَمَ سَعْدٌ فَلَمَّا قَدِمَ سَعْدٌ ذُکِرَ ذَلِکَ لَهُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ يَنْفَعُهَا أَنْ أَتَصَدَّقَ عَنْهَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَمْ فَقَالَ سَعْدٌ حَائِطُ کَذَا وَکَذَا صَدَقَةٌ عَنْهَا لِحَائِطٍ سَمَّاهُ
حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، سعید بن عمرو بن شرجیل بن سعید بن سعد ، اپنے والد سے، جدہ، حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کسی جنگ کے واسطے نکلے تو ان کی والدہ ماجدہ جو کہ مدینہ منورہ میں تھیں ان کی وفات ہوگئی وفات کے وقت ان سے کہا گیا کہ وہ وصیت کریں وہ فرمانے لگیں کہ کس چیز میں وصیت کروں مال دولت تو حضرت سعد کا ہے میں کس طریقہ سے وصیت کروں۔ چنانچہ وہ حضرت سعد کے مدینہ منورہ واپس آنے سے قبل ہی وفات پا گئیں جس وقت وہ مدینہ منورہ آئے تو ان کے سامنے اس بات کا تذکرہ کیا گیا۔ اس پر انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اگر میں ان کی جانب سے صدقہ کروں تو کیا ان کو اس کا نفع پہنچے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جی ہاں۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمانے لگے کہ فلاں فلاں باغ اپنی والدہ کی جانب سے صدقہ کرتا ہوں۔
It was narrated from Abu Hurairah that the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم said: “When a man dies all his good deeds come to an end except three: Ongoing charity (Sadaqah Jariyah), beneficial knowledge and a righteous son who prays for him.” (Sahih)