وقف کرنے کے طریقے اور زیر نظر حدیث میں راویوں کا اختلاف کا بیان
راوی: حمید بن مسعدہ , یزید , ابن عون , نافع , ابن عمر
أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ قَالَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ وَهُوَ ابْنُ زُرَيْعٍ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ أَصَابَ عُمَرُ أَرْضًا بِخَيْبَرَ فَأَتَی النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَصَبْتُ أَرْضًا لَمْ أُصِبْ مَالًا قَطُّ أَنْفَسَ عِنْدِي فَکَيْفَ تَأْمُرُ بِهِ قَالَ إِنْ شِئْتَ حَبَّسْتَ أَصْلَهَا وَتَصَدَّقْتَ بِهَا فَتَصَدَّقَ بِهَا عَلَی أَنْ لَا تُبَاعَ وَلَا تُوهَبَ وَلَا تُورَثَ فِي الْفُقَرَائِ وَالْقُرْبَی وَالرِّقَابِ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالضَّيْفِ وَابْنِ السَّبِيلِ لَا جُنَاحَ عَلَی مَنْ وَلِيَهَا أَنْ يَأْکُلَ مِنْهَا بِالْمَعْرُوفِ وَيُطْعِمَ صَدِيقًا غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ فِيهِ
حمید بن مسعدہ، یزید، ابن عون، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خیبر میں کچھ زمین ملی تو وہ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! مجھ کو اس قسم کی زمین ملی ہے کہ آج تک اس قدر پسندیدہ مال مجھ کو حاصل نہیں ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بارے میں مجھ کو کیا حکم ارشاد فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر تمہارا دل چاہے تو وہ زمین اپنے پاس رکھ لو اور اس کے منافع کو تم صدقہ خیرات کو دو اس بات پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس زمین کے منافع کو اس طریقہ سے صدقہ فرما دئیے کہ وہ زمین نہ تو فروخت کی جا سکتی تھی اور نہ ہی ہبہ کی جا سکتی تھی اور نہ وہ وراثت میں کسی کو تقسیم کی جا سکتی تھی بلکہ اس کو غرباء فقراء رشتہ داروں اور غلاموں وغیرہ کو آزاد کرانے مہمان کا اعزاز کرنے اور اللہ کے راستہ میں دینے اور مسافر کی مدد کرنے میں خرچ کیا جائے۔ اس طریقہ سے اگر اس وقف کا ناظم بھی عرف کے مطابق مقدار میں اس میں سے کچھ کھائے پئے یا اپنے کسی دوست وغیرہ کو کھلا دے گا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ اس میں سے دولت اکٹھا نہ کرنے لگ جائے۔
It was narrated from Bishr, from Ibn ‘Awn, from Nafi’, from Ibn ‘Umar who said: “Umar acquired some land at Khaibar. He came to the Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم and consulted him about it. He said: ‘I have acquired a great deal of land, and I have never acquired any wealth that is more precious to me than it. What do you command me to do with it?’ He said: ‘If you wish, you may freeze it and give it in charity.’ So he gave it in charity on condition that it would not be sold or given away, and he gave it in charity to the poor, relatives, to emancipate slaves, for the cause of Allah, for wayfarers and guests. There is no sin — on the administrator — if he eats (from it) or feeds a friend, with no intention of becoming wealthy from it.” These are the wordings of Isma’il” (Sahih)