عدت میں بناؤ سنگھار چھوڑ دینا مسلمان عورت کے لئے ہے نہ کہ یہودی اور عیسائی خاتون کے لئے۔
راوی:
وَقَالَتْ زَيْنَبُ سَمِعْتُ أُمَّ سَلَمَةَ تَقُولُ جَاءَتْ امْرَأَةٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ ابْنَتِي تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا وَقَدْ اشْتَكَتْ عَيْنَهَا أَفَأَكْحُلُهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا ثُمَّ قَالَ إِنَّمَا هِيَ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا وَقَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ فِي الْجَاهِلِيَّةِ تَرْمِي بِالْبَعْرَةِ عِنْدَ رَأْسِ الْحَوْلِ قَالَ حُمَيْدٌ فَقُلْتُ لِزَيْنَبَ وَمَا تَرْمِي بِالْبَعْرَةِ عِنْدَ رَأْسِ الْحَوْلِ قَالَتْ زَيْنَبُ كَانَتْ الْمَرْأَةُ إِذَا تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا دَخَلَتْ حِفْشًا وَلَبِسَتْ شَرَّ ثِيَابِهَا وَلَمْ تَمَسَّ طِيبًا وَلَا شَيْئًا حَتَّى تَمُرَّ بِهَا سَنَةٌ ثُمَّ تُؤْتَى بِدَابَّةٍ حِمَارٍ أَوْ شَاةٍ أَوْ طَيْرٍ فَتَفْتَضُّ بِهِ فَقَلَّمَا تَفْتَضُّ بِشَيْءٍ إِلَّا مَاتَ ثُمَّ تَخْرُجُ فَتُعْطَى بَعْرَةً فَتَرْمِي بِهَا وَتُرَاجِعُ بَعْدُ مَا شَاءَتْ مِنْ طِيبٍ أَوْ غَيْرِهِ قَالَ مَالِكٌ تَفْتَضُّ تَمْسَحُ بِهِ فِي حَدِيثِ مُحَمَّدٍ قَالَ مَالِكٌ الْحِفْشُ الْخُصُّ
تیسری روایت کے بیان میں حضرت زینب فرماتی ہیں میں نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو فرماتے ہوئے سنا ایک خاتون ایک دن خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئی اور عرض کرنے لگی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری لڑکی کے شوہر کی وفات ہوگئی ہے اور اس کی آنکھیں دکھنے آ گئیں۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حکم فرمائیں تو میں آنکھوں میں سرمہ ڈال لیا کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سرمہ نہ لگاؤ اور فرمایا دور جاہلیت میں ہر ایک (عدت گزارنے والی) عورت سال گزارنے پر مینگنی پھینکتی تھی۔ راوی حمید بن نافع بیان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت زینب سے دریافت کیا کہ مینگنی پھینکنے سے کیا مراد ہے؟ حضرت زینب نے فرمایا کہ دور جاہلیت میں جس عورت کے شوہر کی وفات ہو جاتی تھی تو وہ عورت ایک چھوٹی سی کوٹھڑی میں داخل ہو جاتی تھی اور وہ عورت خراب سے خراب تر لباس پہن لیا کرتی تھی اور ایک سال پورا ہونے پر اس کے پاس کوئی گدھا یا بکری یا کوئی پرندہ لاتے پھر وہ عورت اپنی کھال اور جسم کو رگڑتی تو وہ جانور عام طور پر مر جاتا۔ اس کے بعد وہ عورت کمرہ سے باہر نکلتی۔ اس اندیشہ سے اس وقت اس کو ایک اونٹ کی مینگنی دیتے اس کو پھینک دینے کے بعد جس طرف اس کا دل چاہتا وہ رجحان کرتی۔ یعنی اس کا دل چاہے تو وہ خوشبو لگائے یا کوئی دوسرا کام کرے اس کو اختیار ہوتا۔ حضرت امام مالک نے فرمایا اس حدیث میں جو لفظ تفتض ہے اس کے یہ معنی ہیں کہ وہ اپنے جسم کو ملے اور محمد کی روایت میں حضرت مالک نے کہا کہ خفش لکڑی کے چھوٹے سے کمرے کو کہتے ہیں۔
It was narrated that Umm ‘Atiyyah said: “The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم said: ‘No woman should mourn for anyone who dies for more than three days, except for a husband, for whom she should mourn for four months and ten days. She should not wear garments that are dyed or patterned, or put on kohl or comb her hair, and she should not put on any perfume except when purifying herself after her period, when she may use a little of Qust or lzfar.” (Sahih)