سنن نسائی ۔ جلد دوم ۔ نکاح سے متعلقہ احادیث ۔ حدیث 1295

حالت سفر میں دلہن کے پاس (سہاگ رات کے لیے) جانے سے متعلق

راوی: علی بن حجر , اسمعیل , حمید , انس

أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ قَالَ حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ عَنْ أَنَسٍ قَالَ أَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ خَيْبَرَ وَالْمَدِينَةِ ثَلَاثًا يَبْنِي بِصَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ فَدَعَوْتُ الْمُسْلِمِينَ إِلَی وَلِيمَتِهِ فَمَا کَانَ فِيهَا مِنْ خُبْزٍ وَلَا لَحْمٍ أَمَرَ بِالْأَنْطَاعِ وَأَلْقَی عَلَيْهَا مِنْ التَّمْرِ وَالْأَقِطِ وَالسَّمْنِ فَکَانَتْ وَلِيمَتَهُ فَقَالَ الْمُسْلِمُونَ إِحْدَی أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ أَوْ مِمَّا مَلَکَتْ يَمِينُهُ فَقَالُوا إِنْ حَجَبَهَا فَهِيَ مِنْ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ وَإِنْ لَمْ يَحْجُبْهَا فَهِيَ مِمَّا مَلَکَتْ يَمِينُهُ فَلَمَّا ارْتَحَلَ وَطَّأَ لَهَا خَلْفَهُ وَمَدَّ الْحِجَابَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ النَّاسِ

علی بن حجر، اسماعیل، حمید، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیبر اور مدینہ منورہ کے درمیان تین روز قیام فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات میں حضرت صفیہ بنت حی کے پاس رہے اور میں نے مسلمانوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت ولیمہ کے واسطے بلایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دستر خوان بچھانے کا حکم فرمایا اس وقت وہاں پر روٹی اور گوشت موجود نہ تھا پھر اس چمڑے کے دستر خوان پر کھجوریں اور پنیر اور گھی وغیرہ آنے لگ گئے۔ پس اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ولیمہ ہو گیا۔ مطلب یہ ہے کہ کسی شخص نے کھجوریں لا کر ڈال دیں اور کسی شخص نے پنیر اور کسی نے گھی اور کسی نے مالیدہ بنا کر پیش کیا۔ سب نے مل کر وہ کھانا کھا لیا پھر لوگوں نے یہ بات کہنا شروع کر دیا کہ صفیہ بھی ایک شادی شدہ خاتون ہو گئیں اور ازواج مطہرات اور جیسی اور دوسری شادی شدہ خواتین ہیں اس طریقہ سے صفیہ بھی ہیں اور وہ سب لوگوں کی ماں بن گئیں یا ابھی وہ باندی ہی ہیں۔ پھر کہنے لگے اگر وہ باپردہ ہو گئیں تو یہ سمجھو کہ وہ مومنین کی ماں ہیں یعنی دوسری ازواج مطہرات کی طرح وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ بن گئیں۔ جس وقت وہاں سے کوچ ہوا یعنی اس جگہ سے روانگی ہوئی تو کجاوہ پر بسترا بچھایا گیا۔ پیچھے کی جانب اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پردہ لگایا گیا یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمیعن کے درمیان پردہ حائل کر دیا گیا۔ (کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ساتھ صفیہ بھی تھیں اس لئے کہ پردہ سے آڑ کرنا لازم تھا)

It was narrated that ‘Amir bin Saad said: “I entered upon Qura bin Ka’b and Abu Mas’ud Al-Ansari during a wedding and there were some young girls singing. I said: ‘You are two of the Companions of the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم who were present at Badr, and this is being done in your presence!’ They said: ‘Sit down if you want and listen with us, or if you want you can go away. We were granted a concession allowing entertainment at weddings.” (Sahih)

یہ حدیث شیئر کریں