حالت سفر میں دلہن کے پاس (سہاگ رات کے لیے) جانے سے متعلق
راوی: زیاد بن ایوب , اسمعیل ابن علیہ , عبدالعزیز بن صہیب , انس
أَخْبَرَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزَا خَيْبَرَ فَصَلَّيْنَا عِنْدَهَا الْغَدَاةَ بِغَلَسٍ فَرَکِبَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَکِبَ أَبُو طَلْحَةَ وَأَنَا رَدِيفُ أَبِي طَلْحَةَ فَأَخَذَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي زُقَاقِ خَيْبَرَ وَإِنَّ رُکْبَتِي لَتَمَسُّ فَخِذَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنِّي لَأَرَی بَيَاضَ فَخِذِ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا دَخَلَ الْقَرْيَةَ قَالَ اللَّهُ أَکْبَرُ خَرِبَتْ خَيْبَرُ إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَائَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ قَالَهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ قَالَ وَخَرَجَ الْقَوْمُ إِلَی أَعْمَالِهِمْ قَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ فَقَالُوا مُحَمَّدٌ قَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ وَقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا وَالْخَمِيسُ وَأَصَبْنَاهَا عَنْوَةً فَجَمَعَ السَّبْيَ فَجَائَ دِحْيَةُ فَقَالَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَعْطِنِي جَارِيَةً مِنْ السَّبْيِ قَالَ اذْهَبْ فَخُذْ جَارِيَةً فَأَخَذَ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ فَجَائَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَعْطَيْتَ دِحْيَةَ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ سَيِّدَةَ قُرَيْظَةَ وَالنَّضِيرِ مَا تَصْلُحُ إِلَّا لَکَ قَالَ ادْعُوهُ بِهَا فَجَائَ بِهَا فَلَمَّا نَظَرَ إِلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خُذْ جَارِيَةً مِنْ السَّبْيِ غَيْرَهَا قَالَ وَإِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا فَقَالَ لَهُ ثَابِتٌ يَا أَبَا حَمْزَةَ مَا أَصْدَقَهَا قَالَ نَفْسَهَا أَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا قَالَ حَتَّی إِذَا کَانَ بِالطَّرِيقِ جَهَّزَتْهَا لَهُ أُمُّ سُلَيْمٍ فَأَهْدَتْهَا إِلَيْهِ مِنْ اللَّيْلِ فَأَصْبَحَ عَرُوسًا قَالَ مَنْ کَانَ عِنْدَهُ شَيْئٌ فَلْيَجِئْ بِهِ قَالَ وَبَسَطَ نِطَعًا فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيئُ بِالْأَقِطِ وَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيئُ بِالتَّمْرِ وَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيئُ بِالسَّمْنِ فَحَاسُوا حَيْسَةً فَکَانَتْ وَلِيمَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
زیاد بن ایوب، اسماعیل ابن علیہ، عبدالعزیز بن صہیب، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہاد فرمانے کے لئے خیبر کے لئے روانہ ہونے کا ارادہ فرمایا تو ہم لوگوں نے اندھیرے ہی میں خیبر کے نزدیک نماز فجر ادا کی۔ پھر سوار ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابوطلحہ بھی سوار ہوئے اور میں ان لوگوں کے ساتھ سوار ہوگیا جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خیبر کی گلیوں میں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس طریقہ سے فرمانے لگے" اللَّهُ أَکْبَرُ خَرِبَتْ خَيْبَرُ إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَائَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ " پہلے اللہ اکبر فرمایا اور پھر فرمایا خیبر برباد ہوگیا۔ جن لوگوں کے مکانات اور صفوں کے درمیان ہم لوگ اتریں گے (یعنی ہم لوگ جن پر حملہ آور ہوں گے) اور ان لوگوں پر برا دن چڑھے گا (یعنی وہ دن ان کے واسطے برا ہوگا) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ اس طریقہ سے ارشاد فرمایا حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جس وقت ہم لوگ اپنے اپنے کام کے واسطے نکل رہے تھے (حدیث کے راوی عبدالعزیز فرماتے ہیں کہ جس وقت انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو) کہنے لگے کہ یہ تو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ (جبکہ ہم لوگوں کے بعض ساتھی کہتے ہیں کہ وہ اس طریقہ سے کہنے لگے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کا لشکر پہنچ گیا۔) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر ہم لوگوں نے زبردستی خیبر فتح کیا اس کے بعد قیدیوں کو جمع کیا گیا تو اس دوران خیبر زبردستی حاصل کیا گیا پھر قیدی لوگ ایک جگہ جمع کئے گئے تو اس دوران حضرت دحیہ کلبی حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان میں سے ایک باندی مجھ کو عنایت فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جاؤ اور تم اس کو لے لو۔ انہوں نے حضرت صفیہ بنت حی کو لے لیا۔ اس بات پر ایک شخص خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت دحیہ کو قبیلہ بنو قریظہ اور قبیلہ بنونضیر کی سردار حضرت صفیہ کو دے دیا ہے وہ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی کے علاوہ کسی کے واسطے درست نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم اس کو اس خاتون کے ساتھ بلا لو چنانچہ وہ ان کو لے کر حاضر ہوئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی جانب دیکھا تو ارشاد فرمایا کہ تم کوئی دوسری باندی لے لو۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو آزاد فرما کر ان کے ساتھ نکاح فرما لیا۔ حضرت ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت فرمایا کہ اے ابوحمزہ! رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو بطور مہر کیا چیز عنایت فرمائی؟ انہوں نے فرمایا ان کی آزادی کو ان کا مہر مقرر فرما کر ان سے نکاح فرما لیا پھر راستہ ہی میں ام سلیم نے ان کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے تیار کیا اور رات کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے گئیں پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح تک ان کے پاس رہے اور فرمایا کہ کسی کے پاس کچھ ہو وہ لے کر آجائے۔ پھر دستر خوان بچھایا گیا اور کوئی شخص پنیر لے کر حاضر ہوا تو کوئی شخص کھجور لے کر حاضر ہوا اور کوئی شخص گھی لے کر حاضر ہوا پھر ان سب کو ملا دیا گیا اور یہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ولیمہ (یعنی مسنون ولیمہ تھا)۔
It was narrated from Humaid that he heard Anas say:
“The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم stayed with Safiyyah bint Huyayy bin Al on the way (back from) Khaibar for three days when he married her, then she was among those who were commanded to observe Hijab.” (Sahih)