مہر کے بغیر نکاح کا جائز ہونا
راوی: علی بن حجر , علی بن مسہر , داؤد بن ابی ہند , شعبی , علقمہ بن عبداللہ بن مسعود
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ أَتَاهُ قَوْمٌ فَقَالُوا إِنَّ رَجُلًا مِنَّا تَزَوَّجَ امْرَأَةً وَلَمْ يَفْرِضْ لَهَا صَدَاقًا وَلَمْ يَجْمَعْهَا إِلَيْهِ حَتَّی مَاتَ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ مَا سُئِلْتُ مُنْذُ فَارَقْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشَدَّ عَلَيَّ مِنْ هَذِهِ فَأْتُوا غَيْرِي فَاخْتَلَفُوا إِلَيْهِ فِيهَا شَهْرًا ثُمَّ قَالُوا لَهُ فِي آخِرِ ذَلِکَ مَنْ نَسْأَلُ إِنْ لَمْ نَسْأَلْکَ وَأَنْتَ مِنْ جِلَّةِ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا الْبَلَدِ وَلَا نَجِدُ غَيْرَکَ قَالَ سَأَقُولُ فِيهَا بِجَهْدِ رَأْيِي فَإِنْ کَانَ صَوَابًا فَمِنْ اللَّهِ وَحْدَهُ لَا شَرِيکَ لَهُ وَإِنْ کَانَ خَطَأً فَمِنِّي وَمِنْ الشَّيْطَانِ وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ مِنْهُ بُرَآئُ أُرَی أَنْ أَجْعَلَ لَهَا صَدَاقَ نِسَائِهَا لَا وَکْسَ وَلَا شَطَطَ وَلَهَا الْمِيرَاثُ وَعَلَيْهَا الْعِدَّةُ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا قَالَ وَذَلِکَ بِسَمْعِ أُنَاسٍ مَنْ أَشْجَعَ فَقَامُوا فَقَالُوا نَشْهَدُ أَنَّکَ قَضَيْتَ بِمَا قَضَی بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي امْرَأَةٍ مِنَّا يُقَالُ لَهَا بَرْوَعُ بِنْتُ وَاشِقٍ قَالَ فَمَا رُئِيَ عَبْدُ اللَّهِ فَرِحَ فَرْحَةً يَوْمَئِذٍ إِلَّا بِإِسْلَامِهِ
علی بن حجر، علی بن مسہر، داؤد بن ابی ہند، شعبی، حضرت علقمہ بن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں کسی قوم کے کچھ لوگ آئے اور عرض کرنے لگے کہ کسی شخص نے کسی خاتون سے نکاح کیا تھا اور نہ تو اس کا مہر مقرر کیا تھا اور نہ اس سے ہم بستری کی تھی اور اس شخص کا اس طریقہ سے انتقال ہو گیا۔ یہ بات سن کر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمانے لگے۔ اس طرح کی مشکل بات اور مشکل سوال رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد کسی نے مجھ سے نہیں دریافت کیا تھا اس وجہ سے تم کسی دوسرے شخص کے پاس چلے جاؤ غرض ان لوگوں نے ایک ماہ تک پیچھا کیا اور آخرکار عرض کرنے لگے ہم لوگ اب کس کے پاس جائیں اور مسئلہ کا حکم کس سے دریافت کریں اور (ہماری نظر میں تو) صحابہ کرام میں سے آپ جیسا صاحب علم اور بزرگ اس شہر میں کوئی نہیں ہے۔ یہ بات سن کر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا اب میں اپنی رائے کے زور سے حکم کرتا ہوں اگر حکم درست ہوا تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے جو کہ وَحْدَهُ لَا شَرِيکَ لَهُ ہے اور اگر غلط ہو تو یہ میری اور شیطان کی غلطی ہے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں غلطی سے بالکل بری ہیں۔ میری رائے میں ایسی خاتون کو مہر دینا چاہیے کہ جس قدر اس کے خاندان کی خواتین کا مہر ہے نہ تو اس سے کم اور نہ ہی اس سے زیادہ اور اس خاتون کے واسطے وراثت بھی ہے اور اس کو عدت گزارنا چاہیے چار ماہ اور دس دن اور کہا کہ یہ مسئلہ قبیلہ اشجع کی موجودگی میں دیا گیا پھر اٹھ کھڑے ہوئے سب لوگ اور کہنے لگے کہ ہم لوگ گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے اس قسم کا فیصلہ فرما دیا ہے جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہماری برادری کی ایک عورت کا فیصلہ فرمایا تھا۔ راوی حدیث بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس قدر کبھی خوش و خرم نہیں دیکھا (کہ جس قدر اس دن ان کو خوش و خرم دیکھا) مگر اسلام قبول کرنے کے وقت میں۔ اس لئے کہ ان کی رائے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رائے کے مطابق ہوگئی۔
It was narrated from Sahl bin Saad that a woman came to the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم and said:
“Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم, I give myself in marriage to you.” She stood for a long time, then a man stood up and said: “Marry her to me if you do not want to marry her.” The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم said: “Do you have anything?” He said: “I cannot find anything.” He said: “Look (for something), even if it is only an iron ring.” So he looked but he could not find anything. The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم said to him: “Have you (memorized) anything of the Qur’an?” He said: “Yes, Sarah such and such and Si rah such and such,” naming theni. The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم said: “I marry her to you for what you know of the Qur’an.” (Sahih)