مسافر مغرب کی نماز اور نماز عشاء کون سے وقت جمع کر کے پڑھے
راوی: عبدة بن عبدالرحیم , ابن شمیل , کثیر بن قاروندا
أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ شُمَيْلٍ قَالَ حَدَّثَنَا کَثِيرُ بْنُ قَارَوَنْدَا قَالَ سَأَلْنَا سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ الصَّلَاة فِي السِّفْر فَقُلْنَا أَکَانَ عَبْدُ اللَّهِ يَجْمَعُ بَيْنَ شَيْئٍ مِنْ الصَّلَوَاتِ فِي السَّفَرِ فَقَالَ لَا إِلَّا بِجَمْعٍ ثُمَّ أَتَيْتُهُ فَقَالَ کَانَتْ عِنْدَهُ صَفِيَّةُ فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ أَنِّي فِي آخِرِ يَوْمٍ مِنْ الدُّنْيَا وَأَوَّلِ يَوْمٍ مِنْ الْآخِرَةِ فَرَکِبَ وَأَنَا مَعَهُ فَأَسْرَعَ السَّيْرَ حَتَّی حَانَتْ الصَّلَاةُ فَقَالَ لَهُ الْمُؤَذِّنُ الصَّلَاةَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ فَسَارَ حَتَّی إِذَا کَانَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ نَزَلَ فَقَالَ لِلْمُؤَذِّنِ أَقِمْ فَإِذَا سَلَّمْتُ مِنْ الظُّهْرِ فَأَقِمْ مَکَانَکَ فَأَقَامَ فَصَلَّی الظُّهْرَ رَکْعَتَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ ثُمَّ أَقَامَ مَکَانَهُ فَصَلَّی الْعَصْرَ رَکْعَتَيْنِ ثُمَّ رَکِبَ فَأَسْرَعَ السَّيْرَ حَتَّی غَابَتْ الشَّمْسُ فَقَالَ لَهُ الْمُؤَذِّنُ الصَّلَاةَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ فَقَالَ کَفِعْلِکَ الْأَوَّلِ فَسَارَ حَتَّی إِذَا اشْتَبَکَتْ النُّجُومُ نَزَلَ فَقَالَ أَقِمْ فَإِذَا سَلَّمْتُ فَأَقِمْ فَصَلَّی الْمَغْرِبَ ثَلَاثًا ثُمَّ أَقَامَ مَکَانَهُ فَصَلَّی الْعِشَائَ الْآخِرَةَ ثُمَّ سَلَّمَ وَاحِدَةً تِلْقَائَ وَجْهِهِ ثُمَّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا حَضَرَ أَحَدَکُمْ أَمْرٌ يَخْشَی فَوْتَهُ فَلْيُصَلِّ هَذِهِ الصَّلَاةَ
عبدة بن عبدالرحیم، ابن شمیل، کثیر بن قاروندا سے روایت ہے کہ ہم لوگوں نے حضرت سالم بن عبداللہ بن عمر سے نماز سفر کے بارے میں دریافت کیا تو ہم نے کہا کہ کیا حضرت عبداللہ بن عمر نمازوں کو دوران سفر جمع فرماتے تھے؟ انہوں نے جواب میں فرمایا نہیں۔ لیکن مقام مزدلفہ میں دوران حج نماز مغرب اور نماز عشاء کو جمع فرماتے پھر بیان فرمایا کہ حضرت عبداللہ بن عمرکے نکاح میں حضرت صفیہ بنت ابی عبید تھیں انہوں نے کہلا کر بھیج دیا کہ اے حضرت عبداللہ بن عمر دنیا میں آج میرا آخری دن ہے اور آخرت کے لئے میرا یہ پہلا دن ہے (یعنی میری موت میرے سامنے ہے) یہ بات سن کر عبداللہ بن عمر سوار ہوگئے اور میں ان کے ساتھ تھا۔ بہت زیادہ جلدی وہ روانہ ہوگئے جس وقت نماز کا وقت پہنچا تو مؤذن نے فرمایا الصلوة یا ابا عبدالرحمن! یعنی اے ابوعبدالرحمن نماز کا وقت تیار ہے۔ بہرحال وہ اسی طرح چلتے رہے اور جس وقت دونوں نمازوں کے درمیان کا وقت ہوگیا (جس کے بعد اس سے اگلی نماز کا وقت تھا) تو آپ اس جگہ پر ٹھہرگئے اور آپ نے اذان دینے والے سے فرمایا تم تکبیر پڑھو۔ پھر جس وقت میں سلام پھیر دوں نماز ظہر کا تو اسی جگہ پر تکبیر پڑھو۔ حضرت عبداللہ بن عمر نے اسی جگہ پر دو رکعت نماز عصر ادا فرمائیں اس کے بعد وہ سوار ہوگئے اور وہ وہاں سے جلدی سے روانہ ہوگئے یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا اس کے بعد مؤذن نے عرض کیا حضرت عبدالرحمن! نماز کا وقت ہوگیا ہے۔ انہوں نے اسی طریقہ سے بیان کیا کہ جس طریقہ سے پہلے عمل فرمایا تھا۔ یعنی پہلی نماز میں تاخیر کرو جس وقت نماز کا آخری وقت آجائے تو دونوں کو ایک ساتھ ادا کرو پھر چل دیئے۔ پس جس وقت کہ ستارے صاف طریقہ سے نکل آئے تو آپ وہاں ٹھہر گئے اور فرمایا کہ تکبیر کہو پھر جس وقت سلام پھیروں تو تم تکبیر پڑھو۔ اس کے بعد انہوں نے نماز مغرب کی تین رکعات ادا فرمائیں۔ پھر اسی جگہ پر کھڑے ہو کر نماز عشاء ادا فرمائی اور صرف ایک سلام پھیرا اپنے چہروں کے سامنے (مطلب یہ ہے کہ ایک مرتبہ ہی السلام علیکم ورحمتہ اللہ کہہ دیا اور چہرہ دائیں بائیں نہ پھیرا) اس کے بعد کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس وقت تم لوگوں میں سے کسی شخص کو اس قسم کا کوئی کام پیش آئے جس کے خراب ہونے کا اندیشہ ہو تو اس طریقہ سے نماز ادا کرے۔
It was narrated from Ibn ‘Umar that if the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم was in a hurry to travel, he would combine Maghrib and ‘Isha’. (Sahih)