سنن نسائی ۔ جلد اول ۔ نمازوں کے اوقات کا بیان ۔ حدیث 535

نماز عشاء میں تاخیر کرنا مستحب ہے

راوی: ابراہیم بن حسن و یوسف بن سعید , حجاج , ابن جریج

أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ وَيُوسُفُ بْنُ سَعِيدٍ وَاللَّفْظُ لَهُ قَالَا حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ قُلْتُ لِعَطَائٍ أَيُّ حِينٍ أَحَبُّ إِلَيْکَ أَنْ أُصَلِّيَ الْعَتَمَةَ إِمَامًا أَوْ خِلْوًا قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ أَعْتَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ بِالْعَتَمَةِ حَتَّی رَقَدَ النَّاسُ وَاسْتَيْقَظُوا وَرَقَدُوا وَاسْتَيْقَظُوا فَقَامَ عُمَرُ فَقَالَ الصَّلَاةَ الصَّلَاةَ قَالَ عَطَائٌ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ خَرَجَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ الْآنَ يَقْطُرُ رَأْسُهُ مَائً وَاضِعًا يَدَهُ عَلَی شِقِّ رَأْسِهِ قَالَ وَأَشَارَ فَاسْتَثْبَتُّ عَطَائً کَيْفَ وَضَعَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَی رَأْسِهِ فَأَوْمَأَ إِلَيَّ کَمَا أَشَارَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَبَدَّدَ لِي عَطَائٌ بَيْنَ أَصَابِعِهِ بِشَيْئٍ مِنْ تَبْدِيدٍ ثُمَّ وَضَعَهَا فَانْتَهَی أَطْرَافُ أَصَابِعِهِ إِلَی مُقَدَّمِ الرَّأْسِ ثُمَّ ضَمَّهَا يَمُرُّ بِهَا کَذَلِکَ عَلَی الرَّأْسِ حَتَّی مَسَّتْ إِبْهَامَاهُ طَرَفَ الْأُذُنِ مِمَّا يَلِي الْوَجْهَ ثُمَّ عَلَی الصُّدْغِ وَنَاحِيَةِ الْجَبِينِ لَا يُقَصِّرُ وَلَا يَبْطُشُ شَيْئًا إِلَّا کَذَلِکَ ثُمَّ قَالَ لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَی أُمَّتِي لَأَمَرْتُهُمْ أَنْ لَا يُصَلُّوهَا إِلَّا هَکَذَا

ابراہیم بن حسن و یوسف بن سعید، حجاج، ابن جریج سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عطاء سے عرض کیا کہ تم لوگوں کی رائے میں نماز عشاء ادا کرنے میں عمدہ وقت کونسا ہے چاہے میں امام ہوں یا میں نماز تنہا ادا کروں۔ حضرت نے فرمایا کہ میں نے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے سنا ہے وہ فرماتے تھے ایک رات رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز عشاء میں تاخیر فرمائی یہاں تک کہ لوگ سو گئے اور لوگ نیند سے بیدار ہوئے تو حضرت عمر بن خطاب کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے الصلوةالصلوة حضرت عطاء نے فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (یہ آواز سن کر) نکل آئے گویا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس وقت دیکھ رہا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر مبارک سے پانی ٹپک رہا ہے اور ایک ہاتھ اپنے سر پر ایک جانب رکھے ہوئے تھے حضرت ابن جریج نے فرمایا کہ میں نے مضبوطی سے دریافت کیا حضرت عطاء سے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کس طریقہ سے اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھا تھا۔ انہوں نے فرمایا کہ جس طریقہ سے حضرت عبداللہ ابن عباس نے فرمایا تھا تو حضرت عطاء نے اپنی انگلیوں کو کچھ کھول کر سر پر رکھا۔ یہاں تک کہ انگلیوں کے کونے سر کے آگے آگئے پھر انگلیوں کو ملا کر ہاتھ کو گھمایا سر جو چہرہ سے قریب ہے پھر کنپٹی پر اور پیشانی یا ڈاڑھی پر جس طریقہ سے مسلم شریف کی روایت ہے کہ (ہاتھ کو) ایک کنارہ پر لے گئے لیکن بالوں کو انگلیوں سے نہیں پکڑا (یعنی صرف بال کو دبا کر پانی نکال دیا) بس اس طریقہ سے کیا یعنی دبایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر میری امت کیلئے یہ حکم دشوار نہ ہوتا تو میں ان کو حکم دیتا اس وقت نماز ادا کرنے کا (یعنی نماز عشاء اس قدر تاخیر سے پڑھا کرتے)۔

It was narrated that Ibn ‘Abbas said: “The Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم delayed ‘Isha’ one night until part of the night had passed. Then ‘Umar, may Allah be pleased with him, got up and called out: ‘The prayer, Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! The women and children have gone to sleep.’ Then the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم came out with water dripping from his head, saying: ‘This is (the best) time (for ‘Isha’), were it not that this would be too difficult for my Ummah.” (Sahih)

یہ حدیث شیئر کریں