فرضیت نماز
راوی: یعقوب بن ابراہیم , یحیی بن سعید , ہشام الدستوائی , قتادہ , انس بن مالک
أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ الدَّسْتَوَائِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ مَالِکِ بْنِ صَعْصَعَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ بَيْنَا أَنَا عِنْدَ الْبَيْتِ بَيْنَ النَّائِمِ وَالْيَقْظَانِ إِذْ أَقْبَلَ أَحَدُ الثَّلَاثَةِ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ فَأُتِيتُ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مَلْآنَ حِکْمَةً وَإِيمَانًا فَشَقَّ مِنْ النَّحْرِ إِلَی مَرَاقِّ الْبَطْنِ فَغَسَلَ الْقَلْبَ بِمَائِ زَمْزَمَ ثُمَّ مُلِئَ حِکْمَةً وَإِيمَانًا ثُمَّ أُتِيتُ بِدَابَّةٍ دُونَ الْبَغْلِ وَفَوْقَ الْحِمَارِ ثُمَّ انْطَلَقْتُ مَعَ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام فَأَتَيْنَا السَّمَائَ الدُّنْيَا فَقِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ مَرْحَبًا بِهِ وَنِعْمَ الْمَجِيئُ جَائَ فَأَتَيْتُ عَلَی آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَام فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ قَالَ مَرْحَبًا بِکَ مِنْ ابْنٍ وَنَبِيٍّ ثُمَّ أَتَيْنَا السَّمَائَ الثَّانِيَةَ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ فَمِثْلُ ذَلِکَ فَأَتَيْتُ عَلَی يَحْيَی وَعِيسَی فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِمَا فَقَالَا مَرْحَبًا بِکَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ ثُمَّ أَتَيْنَا السَّمَائَ الثَّالِثَةَ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ فَمِثْلُ ذَلِکَ فَأَتَيْتُ عَلَی يُوسُفَ عَلَيْهِ السَّلَام فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ قَالَ مَرْحَبًا بِکَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ ثُمَّ أَتَيْنَا السَّمَائَ الرَّابِعَةَ فَمِثْلُ ذَلِکَ فَأَتَيْتُ عَلَی إِدْرِيسَ عَلَيْهِ السَّلَام فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَقَالَ مَرْحَبًا بِکَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ ثُمَّ أَتَيْنَا السَّمَائَ الْخَامِسَةَ فَمِثْلُ ذَلِکَ فَأَتَيْتُ عَلَی هَارُونَ عَلَيْهِ السَّلَام فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ قَالَ مَرْحَبًا بِکَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ ثُمَّ أَتَيْنَا السَّمَائَ السَّادِسَةَ فَمِثْلُ ذَلِکَ ثُمَّ أَتَيْتُ عَلَی مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَقَالَ مَرْحَبًا بِکَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ فَلَمَّا جَاوَزْتُهُ بَکَی قِيلَ مَا يُبْکِيکَ قَالَ يَا رَبِّ هَذَا الْغُلَامُ الَّذِي بَعَثْتَهُ بَعْدِي يَدْخُلُ مِنْ أُمَّتِهِ الْجَنَّةَ أَکْثَرُ وَأَفْضَلُ مِمَّا يَدْخُلُ مِنْ أُمَّتِي ثُمَّ أَتَيْنَا السَّمَائَ السَّابِعَةَ فَمِثْلُ ذَلِکَ فَأَتَيْتُ عَلَی إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَام فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَقَالَ مَرْحَبًا بِکَ مِنْ ابْنٍ وَنَبِيٍّ ثُمَّ رُفِعَ لِي الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ فَسَأَلْتُ جِبْرِيلَ فَقَالَ هَذَا الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ يُصَلِّي فِيهِ کُلَّ يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَکٍ فَإِذَا خَرَجُوا مِنْهُ لَمْ يَعُودُوا فِيهِ آخِرَ مَا عَلَيْهِمْ ثُمَّ رُفِعَتْ لِي سِدْرَةُ الْمُنْتَهَی فَإِذَا نَبْقُهَا مِثْلُ قِلَالِ هَجَرٍ وَإِذَا وَرَقُهَا مِثْلُ آذَانِ الْفِيَلَةِ وَإِذَا فِي أَصْلِهَا أَرْبَعَةُ أَنْهَارٍ نَهْرَانِ بَاطِنَانِ وَنَهْرَانِ ظَاهِرَانِ فَسَأَلْتُ جِبْرِيلَ فَقَالَ أَمَّا الْبَاطِنَانِ فَفِي الْجَنَّةِ وَأَمَّا الظَّاهِرَانِ فَالْبُطَائُ وَالنَّيْل ثُمَّ فُرِضَتْ عَلَيَّ خَمْسُونَ صَلَاةً فَأَتَيْتُ عَلَی مُوسَی فَقَالَ مَا صَنَعْتَ قُلْتُ فُرِضَتْ عَلَيَّ خَمْسُونَ صَلَاةً قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ بِالنَّاسِ مِنْکَ إِنِّي عَالَجْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَةِ وَإِنَّ أُمَّتَکَ لَنْ يُطِيقُوا ذَلِکَ فَارْجِعْ إِلَی رَبِّکَ فَاسْأَلْهُ أَنْ يُخَفِّفَ عَنْکَ فَرَجَعْتُ إِلَی رَبِّي فَسَأَلْتُهُ أَنْ يُخَفِّفَ عَنِّي فَجَعَلَهَا أَرْبَعِينَ ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَی مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام فَقَالَ مَا صَنَعْتَ قُلْتُ جَعَلَهَا أَرْبَعِينَ فَقَالَ لِي مِثْلَ مَقَالَتِهِ الْأُولَی فَرَجَعْتُ إِلَی رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ فَجَعَلَهَا ثَلَاثِينَ فَأَتَيْتُ عَلَی مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ لِي مِثْلَ مَقَالَتِهِ الْأُولَی فَرَجَعْتُ إِلَی رَبِّي فَجَعَلَهَا عِشْرِينَ ثُمَّ عَشْرَةً ثُمَّ خَمْسَةً فَأَتَيْتُ عَلَی مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام فَقَالَ لِي مِثْلَ مَقَالَتِهِ الْأُولَی فَقُلْتُ إِنِّي أَسْتَحِي مِنْ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ أَنْ أَرْجِعَ إِلَيْهِ فَنُودِيَ أَنْ قَدْ أَمْضَيْتُ فَرِيضَتِي وَخَفَّفْتُ عَنْ عِبَادِي وَأَجْزِي بِالْحَسَنَةِ عَشْرَ أَمْثَالِهَا
یعقوب بن ابراہیم، یحیی بن سعید، ہشام الدستوائی، قتادہ، انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت ہے کہ انہوں نے حضرت مالک بن صعصعہ سے سنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں بیت اللہ شریف کے نزدیک تھا اور میں نیند کے عالم میں اور جاگنے کے عالم کے درمیان تھا کہ اس دوران ایک آدمی دو آدمیوں کے درمیان میں آگیا (مراد فرشتہ ہے) اور اس جگہ سونے کا ایک طشت لایا گیا جو کے حکمت اور ایمان سے پر تھا تو میرا سینہ چاک کیا گیا اور میرا سینہ حلق سے لے کر پیٹ تک چاک کیا گیا اور میرا قلب زمزم کے پانی سے دھویا گیا اس کے بعد میرا سینہ حکمت اور ایمان سے بھر دیا گیا اس کے بعد میرے سامنے ایک جانور آیا جو کہ خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا اور میں حضرت جبرائیل کے ساتھ روانہ ہوگیا اور پہلے آسمان پر جو کہ دنیا سے نظر آتا ہے وہاں پہنچا۔ وہاں کے پہرہ دار نے کہا کہ کون ہے؟ تو حضرت جبرائیل نے فرمایا میں جبرائیل ہوں۔ انہوں نے دریافت کیا کہ تمہارے ساتھ اور کون ہے؟ حضرت جبرائیل نے فرمایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ان پہرہ داروں نے دریافت کیا کہ کیا وہ بلائے گئے ہیں یعنی ان کو اس جگہ آنے کی دعوت دی گئی ہے (انہوں نے فرمایا کہ جی ہاں) پھر ان پہرہ داروں نے کہا کہ مرحبا یعنی خوش آمدید (یہ جملہ اہل عرب کا جملہ ہے جو کہ وہ حضرات مہمان کی آمد کے خوشی کے موقع پر بولتے ہیں۔ اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ تم کشادہ اور بہترین جگہ آگئے ہو) حضرت جبرائیل فرماتے ہیں کہ پھر میں حضرت آدم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے ان کو سلام کیا انہوں نے فرمایا مرحبا اے صاحب زادے اور اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! پھر ہم دونوں دوسرے آسمان پر پہنچے اس جگہ بھی ہم سے دریافت کیا کہ کون آیا ہے؟ حضرت جبرائیل نے فرمایا کہ میں جبرائیل ہوں۔ پہرہ داروں اور محافظین نے عرض کیا کہ تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے فرمایا میرے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں پھر اسی طریقہ سے کہا یعنی دریافت کیا گیا کہ وہ بلائے گئے ہیں یعنی ان کو دعوت دی گئی ہے حضرت جبرائیل نے فرمایا کہ جی ہاں ان کو دعوت دی گئی ہے۔ پھر انہوں نے مرحبا فرمایا اور فرمایا کہ بہت بہتر ہے تشریف لے آئیں پھر میں یحیی اور حضرت عیسیٰ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کو سلام کیا انہوں نے فرمایا کہ مرحبا بھائی اور بنی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پھر ہم لوگ تیسرے آسمان پر گئے وہاں بھی دریافت کیا گیا کہ کون ہے؟ کہا جبرائیل۔ پوچھا گیا تمہارے ساتھ کون ہے؟ کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر اسی طرح سے کہا کہ پھر حضرت یوسف کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کو سلام کیا انہوں نے کہا مرحبا اے بھائی اور ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پھر ہم لوگ چوتھے آسمان پر گئے۔ وہاں بھی اسی طرح سے معاملہ ہوا پھر میں حضرت ادریس کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے ان کو سلام کیا انہوں نے فرمایا بھائی صاحب اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ اس کے بعد ہم دونوں پانچویں آسمان پر پہنچے اس مقام پر بھی ہمارے ساتھ یہی معاملہ پیش آیا اور میں حضرت ہارون کے نزدیک پہنچا اور ان کو سلام کیا۔ انہوں نے فرمایا خوش آمدید! اے ہمارے بھائی اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ پھر ہم لوگ چھٹے آسمان پر گئے وہاں بھی اسی طریقہ سے واقعہ پیش ہوا حضرت موسیٰ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کو سلام کیا۔ انہوں نے فرمایا خوش آمدید اے ہمارے بھائی اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس وقت میں آگے کی طرف چلا تو وہ رونے لگ گئے۔ ان سے دریافت کیا گیا کہ آپ کیوں رو رہے ہیں؟ فرمایا کہ یہ نوجوان کہ جس کو آپ نے دنیا میں میرے آگے بعد نبی نبا کر بھیجا ان کی امت میں سے میری امت سے زیادہ اور بہتر لوگ جنت میں داخل ہوگے۔ یہاں تک کہ ہم لوگ ساتویں آسمان پر پہنچ گئے وہاں پر بھی اسی طریقے سے ہم سے سوالات کئے گئے۔ پھر میں حضرت ابراہیم کے نزدیک پہنچا میں نے ان کو سلام کیا انہوں نے فرمایا اے میرے بیٹے خوش آمدید اور اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوش آمدید اس کے بعد مجھے بیت المعمور کی زیارت کرائی گئی (بیت المعمور فرشتوں کا قبلہ ہے) میں نے حضرت جبرائیل امین سے دریافت کیا کہ یہ کیا ہے؟ حضرت جبرائیل نے فرمایا یہ بیت المعمور ہے اس میں روزانہ ستر ہزار فرشتے نماز ادا فرماتے ہیں پھر جس وقت نماز ادا فرما کر باہر کی جانب جاتے ہیں تو پھر دوبارہ اس جگہ واپس نہیں آتے (یعنی روزانہ ستر ہزار فرشتے آتے ہیں اس سے فرشتوں کی تعداد اور ان کا غیر معمولی تعداد میں ہونے کا اندازہ ہوتا ہے) اس کے بعد مجھ کو سدرة المنتہی کی زیارت کرائی گئی سدرۃ المنتہیٰ (اس لفظ کا ترجمہ ہے بیری کا درخت) اور یہ درخت ساتویں آسمان کہ اوپر ہے اور اس کو اس وجہ سے منتہی کہا جاتا ہے کیونکہ حضرات ملائکہ اس مقام پر قیام فرماتے ہیں اور کوئی فرشتہ اس سے آگے نہیں بڑھتا بغیر حکم الٰہی کے تو اس درخت کے بیر مٹکوں کے برابر تھے اور اس درخت (یعنی سدرة المنتہی) کی جڑ میں چار نہریں جاری ہو رہی تھیں دو نہریں چھپی ہوئیں تھیں اور دو کھلی ہوئیں نہریں تھیں میں نے حضرت جبرائیل سے دریافت کیا کہ یہ کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ جو نہریں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چھپی ہوئیں دیکھی ہیں وہ تو جنت کی طرف سے گئی ہیں اور جو نہریں کھلی ہوئی (دیکھی ہیں وہ فرات اور نیل کی نہریں ہیں) اس کے بعد مجھ پر پچاس نمازیں فرض قرار دی گئی۔ پھر میں جب حضرت موسیٰ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے فرمایا تم نے کیا کام انجام دیا؟ میں نے عرض کیا مجھ پر پچاس نمازیں فرض قرار دی گئی ہیں حضرت موسیٰ نے کہا میں تم سے زیادہ لوگوں کے حال سے واقف ہوں میں نے قوم بنی اسرائیل کی کافی اصلاح کی کوشش کی تھی اور تمہاری امت اتنی زیادہ تعداد میں نمازیں نہ ادا کر سکیں گی۔ تم پھر دوبارہ بارگاہ الٰہی میں حاضر ہو اور اللہ تعالیٰ کے حضور نمازوں کی تخفیف کے بارے میں عرض کرو چنانچہ پھر میں دربار الٰہی میں حاضر ہوا اور نماز کی تخفیف کئے جانے کے بارے میں عرض کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے چالیس نمازیں فرض قرار دے دی جس وقت حضرت موسیٰ کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوا تو انہوں نے دریافت فرمایا کہ تم نے کیا کام کیا؟ میں نے عرض کیا کہ (میرے عرض کرنے پر) خداوند تعالیٰ نے پچاس کے بجائے نمازیں چالیس قرار دے دیں (یعنی دس نمازوں کی کمی فرما دی) حضرت موسیٰ نے پھر اسی طریقہ سے فرمایا (یعنی تمہاری امت اس قدر نمازیں ادا نہیں کر سکے گی) تم (تیسری مرتبہ) پھر بارگاہ الٰہی میں جا کر عرض کرو اور اس تعداد میں کمی کراؤ۔ چنانچہ میں پھر بارگاہ الہیٰ میں حاضر ہوا (اور نماز کی تعداد میں کمی کئے جانے کے بارے میں عرض کیا) چنانچہ نمازیں تیس کر دی گئیں۔ جس وقت میں حضرت موسیٰ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے عرض کیا۔ انہوں نے پھر اسی طریقہ سے کہا پھر میں بارگاہ اللہ وندی میں حاضر ہوا تو اللہ تعالیٰ نے نمازیں بیس فرما دیں پھر اسی طریقہ سے نمازیں دس ہوگئی پھر پانچ نمازیں ہوگئیں پھر میں حضرت موسیٰ کی خدمت میں حاضر ہوا انہوں نے پھر اسی طریقہ سے فرمایا (یعنی پھر حاضر ہو کر نماز میں کمی کرا) اس پر میں نے عرض کیا کہ اب مجھ کو حیاء محسوس ہوتی ہے کہ اب پھر بارگاہ الٰہی میں اس کے لئے حاضر ہوں اس پر منجانب اللہ آواز دی گئی کہ میں نے اپنا فرض جاری کردیا اور میں نے اپنے بندوں پر (نماز میں کمی کر دی) اور میں ایک نیک عمل کا دس گنا صلہ دوں گا۔ (تو اب پانچ وقت کی نمازوں کا پانچ گنا ثواب ہوا)۔
It was narrated from Anas bin Malik, from Malik bin Sa’ that the Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم said: “While I was at the Ka’bah, in a state between sleep and wakefulness, three men came, and one of them who was in the middle came toward me. I was brought a basin of gold, filled with wisdom and faith, and he slit open from the throat to the lower abdomen, and washed the heart with Zamzam water, then — “it was filled with wisdom and faith. Then I was brought a riding-beast, smaller than a mule and bigger than a donkey. I set off with Jibril, peace be upon him, and we came to the lowest heaven. It was said: ‘Who is this?’ He said: ‘Jibril.’ It was said: “Who is with you?’ He said: ‘Muhammad.’ It was said: ‘Has (revelation) been sent to him? Welcome to him, what an excellent visit his is.’ I came to Adam, peace be upon him, and greeted him, and he said: ‘Welcome to you! What an excellent son and Prophet.’ Then we came to the second heaven and it was said: ‘Who is this?’ He said: ‘Jibra’il.’ It was said: ‘Who is with you?’ he said: ‘Muhammad.’ And the same exchange took place. I came to Yahya and ‘Eisa, peace be upon them both, and greeted them, and they said: ‘Welcome to you! What an excellent brother and Prophet.’ Then we came to the third heaven and it was said: ‘Who is this?’ He said: ‘Jibra’il.’ It was said: ‘Who is with you?’ He said: ‘Muhammad.’ And the same exchange took place. I came to Yasuf, peace be upon him, and greeted him, and he said: ‘Welcome to you! What an excellent brother and Prophet.’ Then we came to the fourth heaven and the same exchange took place. I came to Idris, peace be upon him, and greeted him, and he said: ‘Welcome to you! What an excellent brother and Prophet.’ Then we came to the fifth heaven and the same exchange took place. I came to Harun, peace be upon him, and greeted him, and he said: ‘Welcome to you! What an excellent brother and Prophet.’ Then we came to the sixth heaven and the same exchange took place. I came to Musa, peace be upon him, and greeted him, and he said: ‘Welcome to you! What an excellent brother and Prophet.’ When I passed him, he wept, and it was said: ‘Why are you weeping?’ He said: ‘Lord, this young man whom You have sent after me, more of his Ummah will enter Paradise than from my nation, and they will be more virtuous than them.’ Then we came to the seventh heaven and a similar exchange took place. I came to Ibrahim, peace be upon him, and greeted him, and he said: ‘Welcome to you! What an excellent son and Prophet.’ Then I was taken up to the Oft-Frequented House (Ad-Bait al Ma’mur) and I asked Jibra’il about it, and he said: ‘This is Al-Bait a! Ma’mur in which seventy thousand angels pray every day, and when they leave it they never come back.’ Then I was taken up to Sidrah Al Muntaha (the Lote-Tree of the Utmost Boundary). Its fruits were like the Qilal of Hajar and its leaves were like the ears of elephants. At its base were four rivers: Two hidden rivers and two manifest rivers. I asked Jibril (about them) and he said: ‘The two hidden ones are in Paradise, and the two manifest ones are the Euphrates and the Nile.’ Then fifty prayers were enjoined upon me. I came to Musaand he said: ‘What happened?’ I said: ‘Fifty prayers have been enjoined upon me.’ He said: ‘I know more about the people than you. I tried hard with the Children of Israel. Your Ummah will never be able to bear that. Go back to your Lord and ask Him to reduce it for you.’ So I went back to my Lord and asked Him to reduce it, and He made it forty. Then I went back to Musa, peace be upon him, and he said: ‘What happened?’ I said: ‘He made it forty.’ He said to me something similar to what he said the first time, so I went back to my Lord and He made it thirty. I came to Musa, peace be upon him, and told him, and he said to me something similar to what he said the first time, so I went back to my Lord and he made it twenty, then ten, then five. I came to Musa, peace be upon him, and he said to me something like he had said the first time, but I said: ‘I feel too shy before my Lord to go back to Him.’ Then it was called out: ‘I have decreed (the reward for) My obligation, and I have reduced the burden for My slaves, and I will give a ten-fold reward for each good deed.”