سنن نسائی ۔ جلد اول ۔ جنائز کے متعلق احادیث ۔ حدیث 1972

منافقین پر نماز نہ پڑھنے سے متعلق

راوی: محمد بن عبداللہ بن مبارک , حجین بن مثنی , لیث , عقیل , ابن شہاب , عبیداللہ بن عبداللہ , عبداللہ بن عباس , عمر بن خطاب

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَکِ قَالَ حَدَّثَنَا حُجَيْنُ بْنُ الْمُثَنَّی قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ لَمَّا مَاتَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ دُعِيَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُصَلِّيَ عَلَيْهِ فَلَمَّا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَثَبْتُ إِلَيْهِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ تُصَلِّي عَلَی ابْنِ أُبَيٍّ وَقَدْ قَالَ يَوْمَ کَذَا وَکَذَا کَذَا وَکَذَا أُعَدِّدُ عَلَيْهِ فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ أَخِّرْ عَنِّي يَا عُمَرُ فَلَمَّا أَکْثَرْتُ عَلَيْهِ قَالَ إِنِّي قَدْ خُيِّرْتُ فَاخْتَرْتُ فَلَوْ عَلِمْتُ أَنِّي لَوْ زِدْتُ عَلَی السَّبْعِينَ غُفِرَ لَهُ لَزِدْتُ عَلَيْهَا فَصَلَّی عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ انْصَرَفَ فَلَمْ يَمْکُثْ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّی نَزَلَتْ الْآيَتَانِ مِنْ بَرَائَةَ وَلَا تُصَلِّ عَلَی أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَی قَبْرِهِ إِنَّهُمْ کَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ فَعَجِبْتُ بَعْدُ مِنْ جُرْأَتِي عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ

محمد بن عبداللہ بن مبارک، حجین بن مثنی، لیث، عقیل، ابن شہاب، عبیداللہ بن عبد اللہ، عبداللہ بن عباس، عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جس وقت عبداللہ بن ابی سلول (منافق) مر گیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلایا گیا اس پر نماز پڑھنے کے واسطے جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہو گئے اور تیار ہو گئے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابن ابی وقد پر نماز پڑھتے ہیں حالا نکہ اس نے فلاں روز ایسی بات کہی تھی (جو کہ کفر اور نفاق کی باتیں تھیں) رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سن کر مسکرائے اور فرمایا کہ اے عمر! تم جانے دو جب میں نے بہت زیادہ ضد کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھ کو یہ اختیار ہے کہ میں منافقین پر نماز (جنازہ) پڑھوں یا نہ پڑھوں تو میں نے (منافقین پر) نماز پڑھنے کو اختیار کیا اور اگر میں اس بات سے واقف ہوں کہ ستر مرتبہ سے زیادہ مرتبہ مغفرت چاہوں تو اس کی بخشش ہو جائے گی البتہ میں ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کروں۔ (یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھ کو اختیار دیا اور ستر اس سے مراد ستر کا عدد نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ منافقین کی کبھی مغفرت نہ ہوگی) پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز (جنازہ) پڑھی اور واپس تشریف لائے ابھی کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ سورت برأت کی یہ دو آیات کریمہ" وَلَا تُصَلِّ عَلَی أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَی قَبْرِهِ إِنَّهُمْ کَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ " نازل ہوئیں ترجمہ اور تم ان میں سے کسی پر نماز نہ پڑھو جب وہ مر جائے اور نہ تم اس کی قبر پر کھڑے رہنا کیونکہ ان لوگوں نے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکار کیا ہے اور وہ گنہگار ہوئے اور گنہگار ہونے کی حالت میں مر گئے (تو حضرت عمر کی رائے گرامی اللہ تعالیٰ کے نزدیک منظور اور قبول ہوئی) پھر میں نے حیرت اور تعجب کا اظہار کیا اپنی اس قدر بہادری سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اس دن اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوب واقف ہیں (کہ اس میں کیا مصلحت تھی)۔

It was narrated from ‘Abdul Wahid bin Hamzah that ‘Abbad bin ‘Abdullah bin Az-Zubair told him that ‘Aishah said: “The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم did not offer the funeral prayer for Suhail bin Baiza anywhere but inside the Masjid.” (Sahih)

یہ حدیث شیئر کریں