تہجد کا بیان
راوی: محمد بن بشار , یحیی بن سعید , سعید , قتادہ , زرارة , سعد بن ہشام
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ زُرَارَةَ عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ أَنَّهُ لَقِيَ ابْنَ عَبَّاسٍ فَسَأَلَهُ عَنْ الْوَتْرِ فَقَالَ أَلَا أُنَبِّئُکَ بِأَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ بِوَتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ نَعَمْ قَالَ عَائِشَةُ ائْتِهَا فَسَلْهَا ثُمَّ ارْجِعْ إِلَيَّ فَأَخْبِرْنِي بِرَدِّهَا عَلَيْکَ فَأَتَيْتُ عَلَی حَکِيمِ بْنِ أَفْلَحَ فَاسْتَلْحَقْتُهُ إِلَيْهَا فَقَالَ مَا أَنَا بِقَارِبِهَا إِنِّي نَهَيْتُهَا أَنْ تَقُولَ فِي هَاتَيْنِ الشِّيعَتَيْنِ شَيْئًا فَأَبَتْ فِيهَا إِلَّا مُضِيًّا فَأَقْسَمْتُ عَلَيْهِ فَجَائَ مَعِي فَدَخَلَ عَلَيْهَا فَقَالَتْ لِحَکِيمٍ مَنْ هَذَا مَعَکَ قُلْتُ سَعْدُ بْنُ هِشَامٍ قَالَتْ مَنْ هِشَامٌ قُلْتُ ابْنُ عَامِرٍ فَتَرَحَّمَتْ عَلَيْهِ وَقَالَتْ نِعْمَ الْمَرْئُ کَانَ عَامِرًا قَالَ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ أَنْبِئِينِي عَنْ خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ أَلَيْسَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ قَالَ قُلْتُ بَلَی قَالَتْ فَإِنَّ خُلُقَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقُرْآنُ فَهَمَمْتُ أَنْ أَقُومَ فَبَدَا لِي قِيَامُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ أَنْبِئِينِي عَنْ قِيَامِ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ أَلَيْسَ تَقْرَأُ هَذِهِ السُّورَةَ يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ قُلْتُ بَلَی قَالَتْ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ افْتَرَضَ قِيَامَ اللَّيْلِ فِي أَوَّلِ هَذِهِ السُّورَةِ فَقَامَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ حَوْلًا حَتَّی انْتَفَخَتْ أَقْدَامُهُمْ وَأَمْسَکَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ خَاتِمَتَهَا اثْنَيْ عَشَرَ شَهْرًا ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ التَّخْفِيفَ فِي آخِرِ هَذِهِ السُّورَةِ فَصَارَ قِيَامُ اللَّيْلِ تَطَوُّعًا بَعْدَ أَنْ کَانَ فَرِيضَةً فَهَمَمْتُ أَنْ أَقُومَ فَبَدَا لِي وَتْرُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ أَنْبِئِينِي عَنْ وَتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ کُنَّا نُعِدُّ لَهُ سِوَاکَهُ وَطَهُورَهُ فَيَبْعَثُهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِمَا شَائَ أَنْ يَبْعَثَهُ مِنْ اللَّيْلِ فَيَتَسَوَّکُ وَيَتَوَضَّأُ وَيُصَلِّي ثَمَانِيَ رَکَعَاتٍ لَا يَجْلِسُ فِيهِنَّ إِلَّا عِنْدَ الثَّامِنَةِ يَجْلِسُ فَيَذْکُرُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَيَدْعُو ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمًا يُسْمِعُنَا ثُمَّ يُصَلِّي رَکْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ بَعْدَ مَا يُسَلِّمُ ثُمَّ يُصَلِّي رَکْعَةً فَتِلْکَ إِحْدَی عَشْرَةَ رَکْعَةً يَا بُنَيَّ فَلَمَّا أَسَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخَذَ اللَّحْمَ أَوْتَرَ بِسَبْعٍ وَصَلَّی رَکْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ بَعْدَ مَا سَلَّمَ فَتِلْکَ تِسْعُ رَکَعَاتٍ يَا بُنَيَّ وَکَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّی صَلَاةً أَحَبَّ أَنْ يَدُومَ عَلَيْهَا وَکَانَ إِذَا شَغَلَهُ عَنْ قِيَامِ اللَّيْلِ نَوْمٌ أَوْ مَرَضٌ أَوْ وَجَعٌ صَلَّی مِنْ النَّهَارِ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ رَکْعَةً وَلَا أَعْلَمُ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ الْقُرْآنَ کُلَّهُ فِي لَيْلَةٍ وَلَا قَامَ لَيْلَةً کَامِلَةً حَتَّی الصَّبَاحَ وَلَا صَامَ شَهْرًا کَامِلًا غَيْرَ رَمَضَانَ فَأَتَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ فَحَدَّثْتُهُ بِحَدِيثِهَا فَقَالَ صَدَقَتْ أَمَا إِنِّي لَوْ کُنْتُ أَدْخُلُ عَلَيْهَا لَأَتَيْتُهَا حَتَّی تُشَافِهَنِي مُشَافَهَةً قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ کَذَا وَقَعَ فِي کِتَابِي وَلَا أَدْرِي مِمَّنْ الْخَطَأُ فِي مَوْضِعِ وَتْرِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ
محمد بن بشار، یحیی بن سعید، سعید، قتادہ، زرارة، سعد بن ہشام سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے ملاقات کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وتر نماز کے متعلق دریافت کیا۔ انہوں نے فرمایا کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز وتر کے متعلق اس (شخص) کا پتہ بتاؤں جو اس سلسلے میں سب سے زیادہ معلومات رکھتا ہو؟ انہوں نے کہا جی ہاں۔ انہوں نے فرمایا تو پھر حضرت عائشہ صدیقہ کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو پھر واپس آکر مجھ سے بھی بیان کرنا کہ انہوں نے کیا بتلایا۔ پھر میں حکیم بن افلح کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ میرے ساتھ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس چلیے۔ انہوں نے کہا نہیں! میں ان کے پاس نہیں جاؤں گا۔ کیونکہ میں نے ان سے کہا تھا (مشورہ دیا تھا) ان دو گروہوں کے متعلق کوئی بات نہ کریں (یعنی علی اور معاویہ) لیکن انہوں نے میری بات کو رد کر دیا تھا۔ سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں۔ میں نے انہیں قسم دی کہ ضرور میرے ساتھ چلیں تو وہ تیار ہوگئے۔ جب ہم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس پہنچے تو انہوں نے حکیم سے پوچھا کہ تمہارے ساتھ کون ہے؟ میں نے کہا سعد بن ہشام۔ کہنے لگیں کون ہشام؟ میں نے کہا ہشام بن عامر۔ فرمانے لگیں۔ عامر پر اللہ رحم فرمائے بہت اچھے آدمی تھے۔ سعد کہتے ہیں میں نے عرض کیا اے ام المومنین مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق و عادات کے متعلق بتائیے۔ فرمایا تم قرآن پڑھتے ہو؟ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ فرمانے لگیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اخلاق قرآن کے عین مطابق تھا۔ پھر میں اٹھنے لگا تو مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تہجد کی نماز (والی بات) یاد آگئی۔ چنانچہ میں نے عرض کیا اے ام المومنین مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تہجد کی نماز کے متعلق بتائیے۔ فرمانے لگیں کیا تم نے سورت مزمل نہیں پڑھی؟ میں نے کہا کیوں نہیں۔ فرمانے لگیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے شروع میں رات کو نماز پڑھنا فرض قرار دیا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک سال تک رات کو نماز پڑھا کرتے تھے یہاں تک کہ ان کے پاؤں میں ورم ہو گئے اور اللہ تعالیٰ نے اس کی آخری آیات بارہ ماہ تک روکنے کے بعد نازل فرمائی۔ جن میں تخفیف کا حکم دے دیا گیا اور اس طرح رات کو نماز پڑھنا فرض کے بجائے نفل ہوگیا۔ سعد کہتے ہیں کہ پھر میں اٹھنے لگا تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وتر کی نماز یاد آگئی۔ میں نے عرض کیا اے ام المومنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وتر کی نماز کے متعلق بتائیے۔ فرمایا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضو اور مسواک کے لئے پانی رکھ دیا کرتے تھے جب اللہ کو منظور ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہو کر مسواک کرتے وضو کرتے اور پھر آٹھ رکعات نماز ادا فرماتے اور ان آٹھ رکعات کے درمیان نہیں بیٹھتے بلکہ آخر میں آٹھویں رکعت کے بعد بیٹھتے اور اللہ کا ذکر اور دعا کرنے کے بعد ذرا بلند آواز سے سلام پھیر دیتے پھر دو رکعت بیٹھ کر پڑھتے اور پھر ایک رکعت پڑھتے۔ اس طرح کل گیارہ رکعتیں ہوجاتیں۔ پھر فرمانے لگیں بیٹے! لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر زیادہ ہوگئی اور کچھ وزن بڑھ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وتر کی سات رکعت پڑھنے لگے۔ پھر دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھتے اور اسطرح یہ نو رکعت ہوجاتیں۔ بیٹے! پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر کوئی نماز پڑھنا شروع کرتے تو خواہش یہ ہوتی کہ ہمیشہ ہی اسے باقاعدگی سے پڑھتے رہیں اور اگر کبھی رات کو نیند مرض یا کسی تکلیف کی وجہ سے نماز نہ پڑھ سکتے تو دن میں بارہ رکعت پڑھتے۔ مجھے علم نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی ایک رات میں پورا قرآن شریف پڑھا ہو یا کبھی پوری رات کی عبادت کی ہو یا رمضان کے علاوہ پورے مہینہ کے روزے رکھے ہوں۔ سعد کہتے ہیں پھر میں عبداللہ ابن عباس کے پاس آیا اور انہیں یہ سب باتیں بتائیں۔ تو فرمایا انہوں نے سچ فرمایا اگر میں ان کے پاس جاتا ہوتا تو بالمشافہ یہ حدیث سنتا۔ امام نسائی کہتے ہیں یہ حدیث میری کتاب میں اسی طرح مذکور ہے۔ معلوم نہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وتر کے متعلق غلطی کس سے ہوئی ہے؟
It was narrated from Abu Hurairah that the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم said: “Whoever prays Qiyam during Ramaclan out of faith and in the hope of reward, he will be forgiven his previous sins.” (Sahih)