خطبہ دیتے وقت امام کا منہ لوگوں کی طرف ہو
راوی: قتیبہ , عبدالعزیز , داؤد , عیاض بن عبداللہ , ابوسعید خدری
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ عَنْ دَاوُدَ عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ يَخْرُجُ يَوْمَ الْفِطْرِ وَيَوْمَ الْأَضْحَی إِلَی الْمُصَلَّی فَيُصَلِّي بِالنَّاسِ فَإِذَا جَلَسَ فِي الثَّانِيَةِ وَسَلَّمَ قَامَ فَاسْتَقْبَلَ النَّاسَ بِوَجْهِهِ وَالنَّاسُ جُلُوسٌ فَإِنْ کَانَتْ لَهُ حَاجَةٌ يُرِيدُ أَنْ يَبْعَثَ بَعْثًا ذَکَرَهُ لِلنَّاسِ وَإِلَّا أَمَرَ النَّاسَ بِالصَّدَقَةِ قَالَ تَصَدَّقُوا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَکَانَ مِنْ أَکْثَرِ مَنْ يَتَصَدَّقُ النِّسَائُ
قتیبہ، عبدالعزیز، داؤد، عیاض بن عبد اللہ، ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عیدالفطر اور عیدالضحی کے موقع پر عیدگاہ جاتے اور لوگوں کو نماز پڑھاتے۔ جب دوسری رکعت میں بیٹھ کر سلام پھیرتے تو لوگوں کی طرف چہرہ کر کے کھڑے ہوجاتے۔ لوگ بیٹھے رہتے۔ چنانچہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی کام ہوتا مثلا کہیں لشکر وغیرہ بھیجنا ہوتا تو لوگوں سے بیان کر دیتے ورنہ لوگوں کو صدقہ کرنے کا حکم ارشاد فرماتے اور تین مرتبہ فرماتے صدقہ دو چنانچہ سب سے زیادہ خواتین صدقہ دیا کرتی تھیں۔
It was narrated that Jabir bin ‘Abdullah said: “In his Khutbah the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم used to praise Allah as He deserves to be praised, then he would say: ‘Whomsoever Allah guides, none can lead him astray, and whomsoever Allah sends astray, none can guide. The truest of word is the Book of Allah and best of guidance is the guidance of ulammad. The worst of things are ose that are newly invented; every ‘wly-invented thing is an innovation and every innovation is going astray, and every going-astray is in the Fire.’ – “n he said: ‘The Hour and I have been sent like these two.’ Whenever he mentioned the Hour, his cheeks would turn red, and he would raise his voice and become angry, as if he were warning of an approaching army and F saying: ‘An army is coming to attack you in the morning, or in the evening!’ (Then he said:) ‘Whoever leaves behind wealth, it is for his family, and whoever leaves behind a debt or dependents, then these are my responsibility, and I am the most entitled to take care of the believers.” (Sahih)