جساسہ کے بیان میں
راوی: حجاج بن یعقوب , عبدالصمد , حسین معلم , عبداللہ بن بریدہ , عامربن شرحیل , فاطمہ بنت قیس
حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ أَبِي يَعْقُوبَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ حَدَّثَنَا أَبِي قَالَ سَمِعْتُ حُسَيْنًا الْمُعَلِّمَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ حَدَّثَنَا عَامِرُ بْنُ شَرَاحِيلَ الشَّعْبِيُّ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ قَالَتْ سَمِعْتُ مُنَادِيَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنَادِي أَنْ الصَّلَاةُ جَامِعَةٌ فَخَرَجْتُ فَصَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا قَضَی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاتَهُ جَلَسَ عَلَی الْمِنْبَرِ وَهُوَ يَضْحَکُ قَالَ لِيَلْزَمْ کُلُّ إِنْسَانٍ مُصَلَّاهُ ثُمَّ قَالَ هَلْ تَدْرُونَ لِمَ جَمَعْتُکُمْ قَالُوا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ إِنِّي مَا جَمَعْتُکُمْ لِرَهْبَةٍ وَلَا رَغْبَةٍ وَلَکِنْ جَمَعْتُکُمْ أَنَّ تَمِيمًا الدَّارِيَّ کَانَ رَجُلًا نَصْرَانِيًّا فَجَائَ فَبَايَعَ وَأَسْلَمَ وَحَدَّثَنِي حَدِيثًا وَافَقَ الَّذِي حَدَّثْتُکُمْ عَنْ الدَّجَّالِ حَدَّثَنِي أَنَّهُ رَکِبَ فِي سَفِينَةٍ بَحْرِيَّةٍ مَعَ ثَلَاثِينَ رَجُلًا مِنْ لَخْمٍ وَجُذَامٍ فَلَعِبَ بِهِمْ الْمَوْجُ شَهْرًا فِي الْبَحْرِ وَأَرْفَئُوا إِلَی جَزِيرَةٍ حِينَ مَغْرِبِ الشَّمْسِ فَجَلَسُوا فِي أَقْرُبْ السَّفِينَةِ فَدَخَلُوا الْجَزِيرَةَ فَلَقِيَتْهُمْ دَابَّةٌ أَهْلَبُ کَثِيرَةُ الشَّعْرِ قَالُوا وَيْلَکِ مَا أَنْتِ قَالَتْ أَنَا الْجَسَّاسَةُ انْطَلِقُوا إِلَی هَذَا الرَّجُلِ فِي هَذَا الدَّيْرَ فَإِنَّهُ إِلَی خَبَرِکُمْ بِالْأَشْوَاقِ قَالَ لَمَّا سَمَّتْ لَنَا رَجُلًا فَرِقْنَا مِنْهَا أَنْ تَکُونَ شَيْطَانَةً فَانْطَلَقْنَا سِرَاعًا حَتَّی دَخَلْنَا الدَّيْرَ فَإِذَا فِيهِ أَعْظَمُ إِنْسَانٍ رَأَيْنَاهُ قَطُّ خَلْقًا وَأَشَدُّهُ وَثَاقًا مَجْمُوعَةٌ يَدَاهُ إِلَی عُنُقِهِ فَذَکَرَ الْحَدِيثَ وَسَأَلَهُمْ عَنْ نَخْلِ بَيْسَانَ وَعَنْ عَيْنِ زُغَرَ وَعَنْ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ قَالَ إِنِّي أَنَا الْمَسِيحُ وَإِنَّهُ يُوشَکُ أَنْ يُؤْذَنَ لِي فِي الْخُرُوجِ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنَّهُ فِي بَحْرِ الشَّامِ أَوْ بَحْرِ الْيَمَنِ لَا بَلْ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَا هُوَ مَرَّتَيْنِ وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ قِبَلَ الْمَشْرِقِ قَالَتْ حَفِظْتُ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَاقَ الْحَدِيثَ
حجاج بن یعقوب، عبدالصمد، حسین معلم، عبداللہ بن بریدہ، عامربن شرحیل، حضرت فاطمہ بنت قیس کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منادی کی آواز سنی کہ پکارتا تھا کہ نماز جمع کرنے والی ہے جب جماعت کا وقت ہوتا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہ دور میں ایک منادی یہ آواز لگاتا کہ الصلواة جامعة۔ تاکہ سب اکٹھے ہوجائیں چنانچہ میں نکلی اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی پس جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز پوری کرلی تو ہنستے ہوئے منبر پر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ ہر شخص اپنی جائے نماز کو لازم پکڑ لے (وہیں بیٹھا رہے) پھر فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے تمہیں کیوں جمع کیا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بیشک میں تمہیں (دوزخ سے) ڈرانے کیلئے یا (جنت کی نعمتوں کی) ترغیب دلانے کے لئے جمع نہیں کیا لیکن میں نے تمہیں اس لئے جمع کیا ہے کہ تمیم داری ایک نصرانی شخص تھے وہ آئے اور بیعت کی اور اسلام لے آئے اور مجھ سے ایک بات بیان کی کہ وہ کسی سمندری کشتی میں سوار تھے تیس لخمی وجذامی افراد کے ساتھ۔ سمندر کی موجیں ان سے ایک مہینہ تک اٹکھیلیاں کرتی رہیں پھر وہ ایک دن سورج غروب ہوتے وقت ایک جزیرہ پر جا لگے پھر وہاں سے چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر جزیرہ میں داخل ہوگئے تو وہاں انہیں ایک جانور گھوڑے جیسے بھاری دم اور لمبے بالوں والاملا تو انہوں نے کہا کہ تیرے لئے ہلاکت ہو تو کون ہے؟ وہ کہنے لگی کہ میں جساسہ (جاسوس) ہوں تم سب اس آدمی کے پاس اس دَیر (وہ جگہ جہاں راہب رہا کرتے ہیں) میں چلو کیونکہ وہ تمہاری خبروں کے بارے میں جاننے کا بڑا شائق ہے تمیم داری کہتے ہیں کہ جب اس نے ہم سے اس آدمی کا نام لیا تو ہمیں خوف ہوا اس عورت نما جانور سے کہ کہیں شیطان نہ ہو پس ہم تیزی سے دوڑے یہاں تک کہ دیر میں داخل ہوگئے تو اچانک اس میں ایک بہت بڑا آدمی دیکھا ہم نے مخلوق میں اس جیسا اور اس سے سخت کبھی کوئی نہیں دیکھا تھا اس کے دونوں ہاتھ اس کی گردن پر بندھے ہوئے تھے آگے پوری حدیث بیان کی (کہ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احوال دریافت کئے ) اس نے ان سے بیسان (جو ایک جگہ ہے) اور عین زغر (ایک مقام ہے) کی کھجوروں کے بارے میں پوچھا اور نبی امی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں سوال کیا۔ کہنے لگا کہ بیشک میں مسیح دجال ہوں اور قریب ہے کہ مجھے نکلنے کی اجازت دی جائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بیشک وہ شام کے سمندروں میں ہے یا یمن کے سمندر میں ہے نہیں بلکہ وہ مشرق کی طرف سے ہے نہیں نہیں دو مرتبہ فرمایا اور اپنے ہاتھ مشرق کی طرف اشارہ بھی فرمایا دو مرتبہ۔ فاطمہ بنت قیس کہتی ہیں کہ میں نے یہ ساری حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یاد کرلی اور آگے پوری حدیث بیان کی۔