جب معاہدہ کتابت منسوخ ہوجائے تو غلام کی فروخت کا کیا حکم ہے
راوی: عبدالعزیز بن یحیی , ابن اسحاق , محمد بن جعفر بن زبیر , عروہ بن زبیر , عائشہ
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَی أَبُو الْأَصْبَغِ الْحَرَّانِيُّ حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ عَنْ ابْنِ إِسْحَقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ وَقَعَتْ جُوَيْرِيَةُ بِنْتُ الْحَارِثِ بْنِ الْمُصْطَلِقِ فِي سَهْمِ ثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ أَوْ ابْنِ عَمٍّ لَهُ فَکَاتَبَتْ عَلَی نَفْسِهَا وَکَانَتْ امْرَأَةً مَلَّاحَةً تَأْخُذُهَا الْعَيْنُ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَجَائَتْ تَسْأَلُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي کِتَابَتِهَا فَلَمَّا قَامَتْ عَلَی الْبَابِ فَرَأَيْتُهَا کَرِهْتُ مَکَانَهَا وَعَرَفْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَيَرَی مِنْهَا مِثْلَ الَّذِي رَأَيْتُ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا جُوَيْرِيَةُ بِنْتُ الْحَارِثِ وَإِنَّمَا کَانَ مِنْ أَمْرِي مَا لَا يَخْفَی عَلَيْکَ وَإِنِّي وَقَعْتُ فِي سَهْمِ ثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ وَإِنِّي کَاتَبْتُ عَلَی نَفْسِي فَجِئْتُکَ أَسْأَلُکَ فِي کِتَابَتِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهَلْ لَکِ إِلَی مَا هُوَ خَيْرٌ مِنْهُ قَالَتْ وَمَا هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ أُؤَدِّي عَنْکِ کِتَابَتَکِ وَأَتَزَوَّجُکِ قَالَتْ قَدْ فَعَلْتُ قَالَتْ فَتَسَامَعَ تَعْنِي النَّاسَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ تَزَوَّجَ جُوَيْرِيَةَ فَأَرْسَلُوا مَا فِي أَيْدِيهِمْ مِنْ السَّبْيِ فَأَعْتَقُوهُمْ وَقَالُوا أَصْهَارُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا رَأَيْنَا امْرَأَةً کَانَتْ أَعْظَمَ بَرَکَةً عَلَی قَوْمِهَا مِنْهَا أُعْتِقَ فِي سَبَبِهَا مِائَةُ أَهْلِ بَيْتٍ مِنْ بَنِي الْمُصْطَلِقِ قَالَ أَبُو دَاوُد هَذَا حُجَّةٌ فِي أَنَّ الْوَلِيَّ هُوَ يُزَوِّجُ نَفْسَهُ
عبدالعزیز بن یحیی، ابن اسحاق، محمد بن جعفر بن زبیر، عروہ بن زبیر، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جویریہ بنت حارث بن المصطلق (جنگ میں پکڑنے کے بعد مال غنیمت کی تقسیم میں) حضرت ثابت بن قیس بن شماس یا ان کے چچا زاد بھائی کے حصہ میں آئیں انہوں نے اپنے نفس (کو آزاد کرانے پر) بدل کتابت دینے کا معاہدہ کر لیا اور وہ ایک خوبصورت ملاحت والی عورت تھیں جن پر نظریں پڑتی تھیں، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بدل کتابت کے بارے میں سوال کرتی ہوئی آئیں، جب وہ دروازہ میں کھڑی ہو گئیں تو میں نے انہیں دیکھا اور ان کے کھڑے ہونے کو ناپسند کیا میں نے۔ اور مجھے معلوم تھا کہ ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے وہی اعضاء دیکھیں گے جو میں نے دیکھے ہیں (چہرہ، قدوقامت وغیرہ اور مجھے خیال ہوا کہ کہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل میں بھی ان سے نکاح کی رغبت نہ ہوجائے) جویریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جویریہ بنت الحارث ہوں اور جو میرا پہلے حال تھا، وہ آپ پر مخفی نہیں ہے اور میں ثابت بن قیس بن شماس کے حصہ میں جا پڑی ہوں اور میں نے اسے اپنے نفس (کی آزادی پر) معاہدہ کتابت کر لیا ہے پس میں آپ کے پاس اپنے بدل کتابت کے بارے میں سوال کرنے آئی ہوں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تمہارے لئے اس سے بہتر کچھ اور نہیں ہے؟ وہ کہنے لگیں کہ وہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کہ میں تمہارا بدل کتابت ادا کر دوں اور تم سے نکاح کرلوں۔ وہ کہنے لگی میں نے بیشک کر لیا (یعنی میں بخوشی راضی ہوں) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ جب لوگوں نے یہ سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جویریہ سے نکاح کرلیا تو انہوں نے وہ تمام قیدی (بنی مصطلق کے) جو ان کے قبضہ میں تھے، انہیں چھوڑ دیا اور انہیں آزاد کر دیا اور کہنے لگے کہ یہ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سسرال والے ہیں ہم نے کوئی عورت اتنی برکت والی نہیں دیکھی اپنی قوم پر جویریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے زیادہ کہ ان کے سبب سے سو قیدی بنی المصطلق کے آزاد ہوگئے، امام ابوداؤد فرماتے ہیں کہ یہ قصہ حجت ہے اس بات پر کہ ولی اپنے آپ کا نکاح کر سکتا ہے۔
Narrated Aisha, Ummul Mu'minin:
Juwayriyyah, daughter of al-Harith ibn al-Mustaliq, fell to the lot of Thabit ibn Qays ibn Shammas, or to her cousin. She entered into an agreement to purchase her freedom. She was a very beautiful woman, most attractive to the eye.
Aisha said: She then came to the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) asking him for the purchase of her freedom. When she was standing at the door, I looked at her with disapproval. I realised that the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) would look at her in the same way that I had looked.
She said: Apostle of Allah, I am Juwayriyyah, daughter of al-Harith, and something has happened to me, which is not hidden from you. I have fallen to the lot of Thabit ibn Qays ibn Shammas, and I have entered into an agreement to purchase of my freedom. I have come to you to seek assistance for the purchase of my freedom.
The Apostle of Allah (peace_be_upon_him) said: Are you inclined to that which is better? She asked: What is that, Apostle of Allah? He replied: I shall pay the price of your freedom on your behalf, and I shall marry you.
She said: I shall do this. She (Aisha) said: The people then heard that the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) had married Juwayriyyah. They released the captives in their possession and set them free, and said: They are the relatives of the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) by marriage. We did not see any woman greater than Juwayriyyah who brought blessings to her people. One hundred families of Banu al-Mustaliq were set free on account of her.