تعویز کیسے کیے جائیں
راوی: مسدد , ابوعوانہ , ابی بشر , ابومتوکل , ابوسعید ابوسعید خدری
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ أَبِي بِشْرٍ عَنْ أَبِي الْمُتَوَکِّلِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَهْطًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْطَلَقُوا فِي سَفْرَةٍ سَافَرُوهَا فَنَزَلُوا بِحَيٍّ مِنْ أَحْيَائِ الْعَرَبِ فَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّ سَيِّدَنَا لُدِغَ فَهَلْ عِنْدَ أَحَدٍ مِنْکُمْ شَيْئٌ يَنْفَعُ صَاحِبَنَا فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ نَعَمْ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرْقِي وَلَکِنْ اسْتَضَفْنَاکُمْ فَأَبَيْتُمْ أَنْ تُضَيِّفُونَا مَا أَنَا بِرَاقٍ حَتَّی تَجْعَلُوا لِي جُعْلًا فَجَعَلُوا لَهُ قَطِيعًا مِنْ الشَّائِ فَأَتَاهُ فَقَرَأَ عَلَيْهِ أُمَّ الْکِتَابِ وَيَتْفُلُ حَتَّی بَرَأَ کَأَنَّمَا أُنْشِطَ مِنْ عِقَالٍ قَالَ فَأَوْفَاهُمْ جُعْلَهُمْ الَّذِي صَالَحُوهُمْ عَلَيْهِ فَقَالُوا اقْتَسِمُوا فَقَالَ الَّذِي رَقَی لَا تَفْعَلُوا حَتَّی نَأْتِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَسْتَأْمِرَهُ فَغَدَوْا عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَکَرُوا لَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَيْنَ عَلِمْتُمْ أَنَّهَا رُقْيَةٌ أَحْسَنْتُمْ اقْتَسِمُوا وَاضْرِبُوا لِي مَعَکُمْ بِسَهْمٍ
مسدد، ابوعوانہ، ابی بشر، ابومتوکل، ابوسعید حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کسی سفر میں چل رہی تھی تو وہ عرب قبائل میں سے کسی قبیلہ میں اترے ان کے بعض افراد نے کہا کہ ہمارے سردار کو ڈس لیا گیا ہے تو کیا تم میں سے کسی کے پاس کوئی چیز ہے ایسی جو ہمارے ساتھی کو فائدہ دے تو جماعت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک آدمی نے فرمایا کہ ہاں اللہ کی قسم میں تعویذ کرتا ہوں لیکن ہم نے تم سے مہمان داری چاہی تو تم نے انکار کردیا اس بات سے کہ ہماری مہمانی کرو۔ لہذا میں اس وقت تک تعویذ کرنے والا نہیں یہاں تک کہ تم میرے لئے اجرت مقرر نہ کر دو انہوں نے بکریوں کا ایک ریوڑ بطور اجرت مقرر کیا۔ تو وہ ان کے سردار کے پاس گئے اور اس پر سورت فاتحہ پڑھ کر تھتکار دیا (یہ عمل مسلسل کرتے رہے) یہاں تک کہ وہ شفایاب ہو گیا گویا کہ وہ گرہوں سے آزاد کردیا گیا ہو۔ راوی کہتے ہیں انہوں نے اپنی اجرت پوری دے دی جس پر انہوں نے مصالحت کی تھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کہنے لگے اسے تقسیم کرلو، (آپس میں) جنہوں نے دم کیا تھا وہ کہنے لگے نہیں یہاں تک کہ ہم رسول اللہ کے پاس حاضر نہ ہوجائیں تو ان سے اس کا حکم معلوم کر لیں، چنانچہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئے اور ان سے ذکر کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کہاں سے معلوم ہوا کہ سورت فاتحہ کوئی تعویذ ہے تم نے اچھا کیا کہ اسے تقسیم کرو اور میرا بھی حصہ اس میں مقرر کر دو۔
Narrated Alaqah ibn Sahar at-Tamimi:
We proceeded from the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) and came to a clan of the Arabs.
They said: We have been told that you have brought what is good from this man. Have you any medicine or a charm, for we have a lunatic in chains?
We said: Yes. Then they brought a lunatic in chains. He said: I recited Surat al-Fatihah over him for three days, morning and evening. Whenever I finished it, I would collect my saliva and spit it out, and he seemed as if he were set free from a bond. He said: They gave me some payment, but I said: No, not until I ask the Apostle of Allah (peace_be_upon_him).
He (the Prophet) said: Accept it, for, by my life, some accept it for a worthless charm, but you have done so for a genuine one.