سنن ابوداؤد ۔ جلد سوم ۔ ادب کا بیان ۔ حدیث 1604

شعرگوئی کا بیان

راوی: محمد بن یحیی بن فارس , سعید بن محمد , ابوتمیلہ , ابوجعفر نحوی , عبداللہ بن ثابت , صخر بن عبداللہ بن بریدہ

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی بْنِ فَارِسٍ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا أَبُو تُمَيْلَةَ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو جَعْفَرٍ النَّحْوِيُّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ ثَابِتٍ قَالَ حَدَّثَنِي صَخْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ مِنْ الْبَيَانِ سِحْرًا وَإِنَّ مِنْ الْعِلْمِ جَهْلًا وَإِنَّ مِنْ الشِّعْرِ حُکْمًا وَإِنَّ مِنْ الْقَوْلِ عِيَالًا فَقَالَ صَعْصَعَةُ بْنُ صُوحَانَ صَدَقَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَّا قَوْلُهُ إِنَّ مِنْ الْبَيَانِ سِحْرًا فَالرَّجُلُ يَکُونُ عَلَيْهِ الْحَقُّ وَهُوَ أَلْحَنُ بِالْحُجَجِ مِنْ صَاحِبِ الْحَقِّ فَيَسْحَرُ الْقَوْمَ بِبَيَانِهِ فَيَذْهَبُ بِالْحَقِّ وَأَمَّا قَوْلُهُ إِنَّ مِنْ الْعِلْمِ جَهْلًا فَيَتَکَلَّفُ الْعَالِمُ إِلَی عِلْمِهِ مَا لَا يَعْلَمُ فَيُجَهِّلُهُ ذَلِکَ وَأَمَّا قَوْلُهُ إِنَّ مِنْ الشِّعْرِ حُکْمًا فَهِيَ هَذِهِ الْمَوَاعِظُ وَالْأَمْثَالُ الَّتِي يَتَّعِظُ بِهَا النَّاسُ وَأَمَّا قَوْلُهُ إِنَّ مِنْ الْقَوْلِ عِيَالًا فَعَرْضُکَ کَلَامَکَ وَحَدِيثَکَ عَلَی مَنْ لَيْسَ مِنْ شَأْنِهِ وَلَا يُرِيدُهُ

محمد بن یحیی بن فارس، سعید بن محمد، ابوتمیلہ، ابوجعفر نحوی، عبداللہ بن ثابت، صخر بن عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بعض بیان جادو اثر ہوتے ہیں اور بعض علم جہل ہوتا ہے (بظاہر تو علم ہوتا ہے لیکن ناجائز اور حرام ہونے اور لا عنی ہونے کی وجہ سے اسے جہل فرمایا مثلاً علم نجوم، علم رمل، علم لاعداد وغیرہ) اور بعض شعر حکمت بھرے ہوتے ہیں اور بعض بات بوجھ ہوتی ہے۔ صعصعہ بن صوحان نے کہا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سچ فرمایا کہ بہرحال آپ کا قول کہ بعض بیان جادو اثر ہوتے ہیں تو ایک آدمی جو کسی کا حق دبائے ہوتا ہے صاحب حق سے زیادہ ماہر گفتگو ہوتا ہے اور دلائل کے ساتھ صاحب حق سے اصرار کرتا ہے تو لوگ اسے مدلل انداز گفتگو سے سحرزدہ ہوجاتے ہیں اور وہ دوسرے کا حق وصول کر لیتا ہے( اور بیچارہ صاحب حق ماہر گفتگو نہ ہونے کی وجہ سے اپنا حق بھی کھو بیٹھتا ہے ) اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد کہ بعض علم جہل ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ عالم اپنے علم میں ایسی باتوں کا تکلف کرتا ہے جنہیں وہ نہیں جانتا۔(محض شیخی اور علمیت بگھارنے کے لئے ایسی باتوں کا تکلف کرتا ہے) تو وہ اسے جاہل بنادیتا ہے اور آپ کا یہ ارشاد کہ بعض شعر، حکمت بھرے ہوتے ہیں تو یہ وہ وعظ ونصیحت اور امثال ہیں جن سے لوگوں کو نصیحت ہوتی ہے۔ اور آپ نے یہ جو فرمایا کہ بعض گفتگو بوجھ ہوتی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنی گفتگو ایسے شخص پر پیش کرو جو اس کے قابل نہ ہو اور اسے سننا چاہتا نہ ہو۔

Narrated Buraydah ibn al-Hasib:
I heard the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) say: In eloquence there is magic, in knowledge ignorance, in poetry wisdom, and in speech heaviness.
Sa'sa'ah ibn Suhan said: The Prophet of Allah (peace_be_upon_him) spoke the truth. His statement "In eloquence there is magic" means: (For example), there is a right due from a man who is more eloquent in reasoning than the man who is demanding his right. He (the defendant) charms the people by his speech and takes away his right. His statement "In knowledge there is ignorance" means: A scholar brings to his knowledge what he does not know, and thus he becomes ignorant of that. His statement "In poetry there is wisdom" means: These are the sermons and examples by which people receive admonition. His statement "In speech there is heaviness" means: That you present your speech and your talk to a man who is not capable of understanding it, and who does not want it.

یہ حدیث شیئر کریں