حاکم اگر صاحب حق کو خون معاف کرنے کا حکم دے تو کیا ہے؟
راوی: عثمان بن ابوشیبہ , ابومعاویہ , اعمش , ابوصالح , ابوہریرہ
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قُتِلَ رَجُلٌ عَلَی عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُفِعَ ذَلِکَ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَفَعَهُ إِلَی وَلِيِّ الْمَقْتُولِ فَقَالَ الْقَاتِلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ قَتْلَهُ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْوَلِيِّ أَمَا إِنَّهُ إِنْ کَانَ صَادِقًا ثُمَّ قَتَلْتَهُ دَخَلْتَ النَّارَ قَالَ فَخَلَّی سَبِيلَهُ قَالَ وَکَانَ مَکْتُوفًا بِنِسْعَةٍ فَخَرَجَ يَجُرُّ نِسْعَتَهُ فَسُمِّيَ ذَا النِّسْعَةِ
عثمان بن ابوشیبہ، ابومعاویہ، اعمش، ابوصالح، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ایک آدمی قتل کردیا گیا تو آپ نے اس کے قاتل کو مقتول کے ورثاء کے حوالے کردیا قاتل کہنے لگا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کی قسم میں نے اس کے قتل کا ارادہ نہیں کیا تھا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مقتول کے ورثاء سے فرمایا کہ دیکھو اگر یہ سچا ہے پھر تم نے اسے قتل کردیا تو تم آگ میں داخل ہوگے۔ راوی کہتے ہیں کہ پس اس نے قاتل کا راستہ چھوڑ دیا۔ قاتل کے دونوں بازوں تسموں سے بندھے ہوئے تھے تو وہ اپنے تسموں کو گھسیٹتا ہوا نکلا لہذا اس کا نام" ذوالنسعة" تسمہ والا پڑ گیا۔
Narrated AbuHurayrah:
A man was killed in the lifetime of the Prophet (peace_be_upon_him). The matter was brought to the Prophet (peace_be_upon_him). He entrusted him to the legal guardian of the slain. The slayer said: Apostle of Allah, I swear by Allah, I did not intend to kill him. The Apostle of Allah (peace_be_upon_him) said to the legal guardian: Now if he is true and you kill him, you will enter Hell-fire. So he let him go. His hands were tied with a strap. He came out pulling his strap. Hence he was called Dhu an-Nis'ah (possessor of strap).