جہاد کے لئے سمندر کا سفر
راوی: سلیمان بن داؤد , حماد , ابن زید , یحیی بن سعید , محمد بن یحیی , ابن حبان , انس بن مالک
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعَتَکِيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ زَيْدٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَی بْنِ حَبَّانَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ حَدَّثَتْنِي أُمُّ حَرَامٍ بِنْتُ مِلْحَانَ أُخْتُ أُمِّ سُلَيْمٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ عِنْدَهُمْ فَاسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَکُ قَالَتْ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَضْحَکَکَ قَالَ رَأَيْتُ قَوْمًا مِمَّنْ يَرْکَبُ ظَهْرَ هَذَا الْبَحْرِ کَالْمُلُوکِ عَلَی الْأَسِرَّةِ قَالَتْ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ قَالَ فَإِنَّکِ مِنْهُمْ قَالَتْ ثُمَّ نَامَ فَاسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَکُ قَالَتْ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَضْحَکَکَ فَقَالَ مِثْلَ مَقَالَتِهِ قَالَتْ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ قَالَ أَنْتِ مِنْ الْأَوَّلِينَ قَالَ فَتَزَوَّجَهَا عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ فَغَزَا فِي الْبَحْرِ فَحَمَلَهَا مَعَهُ فَلَمَّا رَجَعَ قُرِّبَتْ لَهَا بَغْلَةٌ لِتَرْکَبَهَا فَصَرَعَتْهَا فَانْدَقَّتْ عُنُقُهَا فَمَاتَتْ
سلیمان بن داؤد، حماد، ابن زید، یحیی بن سعید، محمد بن یحیی، ابن حبان، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت ہے کہ ام حرام نے مجھ سے بیان کیا ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے گھر (دوپہر میں) سوئے پھر ہنستے ہوئے بیدار ہوئے۔ وہ کہتی ہیں کہ میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ کیوں ہنسے؟ فرمایا میں نے (اپنی امت کے) چند لوگوں کو دیکھا جو اس سمندر پر اس طرح سوار ہیں جس طرح (شان و شوکت کے ساتھ) بادشاہ بیٹھتے ہیں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے لئے دعا فرمائیے کہ اللہ مجھے بھی ان لوگوں میں شامل کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تو ان میں تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر سو گئے اور پھر ہنستے ہوئے اٹھے۔ میں نے پھر پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کس بات پر ہنسے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر وہی پہلی والی بات فرمائی۔ میں نے پھر عرض کیا یا رسول اللہ میرے لئے دعا فرمائیے کہ اللہ مجھے بھی ان لوگوں میں شامل فرمائے۔ فرمایا تو پہلے لوگوں میں سے ہو چکی۔ راوی کہتے کہ اس واقعہ کے بعد ام حرام نے عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نکاح کیا اور پھر عبادہ سمندری سفر پر جہاد کے لئے روانہ ہوئے تو اپنے ساتھ ام حرام کو بھی لے گئے جب جہاد سے واپس آئے تو ام حرام کے لئے ایک خچر لایا گیا۔ جس پر وہ سوار ہوئیں پھر اس خچر نے ان کو گرا دیا جس سے ان کی گردن ٹوٹ گئی اور اس سے ان کی موت واقع ہوگئی (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشین گوئی درست ثابت ہوئی۔