شوہر کی وفات پر عورت سوگ منائے
راوی:
قَالَتْ زَيْنَبُ وَسَمِعْتُ أُمِّي أُمَّ سَلَمَةَ تَقُولُ جَاءَتْ امْرَأَةٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ ابْنَتِي تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا وَقَدْ اشْتَكَتْ عَيْنَهَا أَفَنَكْحَلُهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا كُلُّ ذَلِكَ يَقُولُ لَا ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا هِيَ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرٌ وَقَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ فِي الْجَاهِلِيَّةِ تَرْمِي بِالْبَعْرَةِ عَلَى رَأْسِ الْحَوْلِ قَالَ حُمَيْدٌ فَقُلْتُ لِزَيْنَبَ وَمَا تَرْمِي بِالْبَعْرَةِ عَلَى رَأْسِ الْحَوْلِ فَقَالَتْ زَيْنَبُ كَانَتْ الْمَرْأَةُ إِذَا تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا دَخَلَتْ حِفْشًا وَلَبِسَتْ شَرَّ ثِيَابِهَا وَلَمْ تَمَسَّ طِيبًا وَلَا شَيْئًا حَتَّى تَمُرَّ بِهَا سَنَةٌ ثُمَّ تُؤْتَى بِدَابَّةٍ حِمَارٍ أَوْ شَاةٍ أَوْ طَائِرٍ فَتَفْتَضُّ بِهِ فَقَلَّمَا تَفْتَضُّ بِشَيْءٍ إِلَّا مَاتَ ثُمَّ تَخْرُجُ فَتُعْطَى بَعْرَةً فَتَرْمِي بِهَا ثُمَّ تُرَاجِعُ بَعْدُ مَا شَاءَتْ مِنْ طِيبٍ أَوْ غَيْرِهِ قَالَ أَبُو دَاوُد الْحِفْشُ بَيْتٌ صَغِيرٌ
زینب بن ابی سلمہ فرما تی ہیں کہ میں حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ (زوجہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گئی جب ان کے بھائی ( عبیداللہ بن جحش) کا انتقال ہوا۔ پس انہوں نے ایک خوشبو منگائی اور اس کو لگایا۔ پھر فرمایا واللہ مجھے خوشبو کی ضرورت نہ تھی مگر میں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان سنا ہے کہ جو عورت اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہو اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے لیکن اپنے شوہر کی وفات پر چار مہینے اور دس دن تک سوگ منائے۔ حمید کہتے ہیں کہ میں نے زینب بنت ابی سلمہ سے پوچھا کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول کا مطلب کیا ہے کہ وہ سال کے پورا ہونے پر مینگنی پھنیکتی تھی؟ زینب نے کہا کہ زمانہ جاہلیت میں جب کسی عورت کا شوہر مر جاتا تھا تو وہ ایک کوٹھری میں گھس جاتی اور پھٹے پر انے کپڑے پہنتی اور زیب و زینت کے لئے نہ کوئی خوشبو لگا سکتی اور نہ کوئی اور چیز یہاں تک کہ ایک سال گزر جاتا جب ایک سال پورا ہو جاتا تو اس کے پس ایک جانور گدھا یا بکری یا کوئی پرندہ لایا جاتا اس سے وہ اپنے بدن کو رگڑتی اور ایسا کم ہی ہوتا کہ وہ پرندہ جس سے جسم رگڑا جاتا وہ زندہ بچ جاتا ہو (بلکہ اکثر مر جاتا تھا) پھر وہ باہر نکلتی اور اس کو ایک مینگنی دی جاتی جس کو وہ پھینکتی اس کے بعد وہ عدت سے نکلتی پھر جو چاہتی خوشبو وغیرہ لگاتی ابوداؤد رحمہ اللہ تعالی علیہ کہ حفش سے مراد چھوٹا کمرہ ہے۔