قران کا بیان
راوی:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ بْنِ أَعْيَنَ وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ الْمَعْنَى قَالَا حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ أَبِي وَائِلٍ قَالَ قَالَ الصُّبَيُّ بْنُ مَعْبَدٍ كُنْتُ رَجُلًا أَعْرَابِيًّا نَصْرَانِيًّا فَأَسْلَمْتُ فَأَتَيْتُ رَجُلًا مِنْ عَشِيرَتِي يُقَالُ لَهُ هُذَيْمُ بْنُ ثُرْمُلَةَ فَقُلْتُ لَهُ يَا هَنَاهْ إِنِّي حَرِيصٌ عَلَى الْجِهَادِ وَإِنِّي وَجَدْتُ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ مَكْتُوبَيْنِ عَلَيَّ فَكَيْفَ لِي بِأَنْ أَجْمَعَهُمَا قَالَ اجْمَعْهُمَا وَاذْبَحْ مَا اسْتَيْسَرَ مِنْ الْهَدْيِ فَأَهْلَلْتُ بِهِمَا مَعًا فَلَمَّا أَتَيْتُ الْعُذَيْبَ لَقِيَنِي سَلْمَانُ بْنُ رَبِيعَةَ وَزَيْدُ بْنُ صُوحَانَ وَأَنَا أُهِلُّ بِهِمَا جَمِيعًا فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِلْآخَرِ مَا هَذَا بِأَفْقَهَ مِنْ بَعِيرِهِ قَالَ فَكَأَنَّمَا أُلْقِيَ عَلَيَّ جَبَلٌ حَتَّى أَتَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَقُلْتُ لَهُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنِّي كُنْتُ رَجُلًا أَعْرَابِيًّا نَصْرَانِيًّا وَإِنِّي أَسْلَمْتُ وَأَنَا حَرِيصٌ عَلَى الْجِهَادِ وَإِنِّي وَجَدْتُ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ مَكْتُوبَيْنِ عَلَيَّ فَأَتَيْتُ رَجُلًا مِنْ قَوْمِي فَقَالَ لِي اجْمَعْهُمَا وَاذْبَحْ مَا اسْتَيْسَرَ مِنْ الْهَدْيِ وَإِنِّي أَهْلَلْتَ بِهِمَا مَعًا فَقَالَ لِي عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ هُدِيتَ لِسُنَّةِ نَبِيِّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
حضرت ابووائل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ صبی بن معبد نے کہا کہ میں اعرابی نصرانی عیسائی تھا ، پس میں نے اسلام قبول کر لیا تو میں اپنے قبیلہ کے ھدیم بن ثرملہ نامی شخص کے پاس آیا تو میں نے اسے کہا :اے فلاں!مجھے جہاد کی بہت رغبت ہے اور مجھ پر حج اور عمرہ بھی فرض ہے تو میں اب ان دونوں کو کیونکر اکٹھا کر سکتا ہوں؟ اس نے کہا؛ انہیں اکٹھا کرلو اور جو میسر ہو اس کی قربانی کردو، پس میں نے ان دونوں (حج قران) کا احرام باندھا ۔ پس جب میں"عذیب" (بنی تمیم کے پانی کی جگہ) کے مقام پر پہنچاسلمان بن ربیعہ اور زید بن صوحان سے میری ملاقات ہوئی اور میں نے ان دونوں کا تلبیہ پڑھا تو ان میں سے ایک دوسرے سے کہنے لگا: یہ کیا (کیسا) ہے یہ تو اپنے اونٹ سے بھی زیادہ فقیہ ہے؟وہ (صبی) بیان کرتے ہیں کہ اس بات سے مجھے ایسے محسوس ہوا گویا مجھ پر پہاڑ رکھ دیا گیا ہے۔ میں عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور کہا: اے امیر المومنین! میں ایک اعرابی نصرانی شخص ہوں اور میں نے اسلام قبول کرلیا ہے اور میں جہاد کرنا چاہتا ہوں اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ مجھ پر حج اور عمرہ بھی فرض ہے۔پس میں اپنی قوم کے ایک شخص کے پاس آیا تو اس نے مجھے بتایا کہ تم ان دونوں کو اکٹھا کر لو اور قربانی میں سے جو میسر ہو اسے ذبح کرلو۔ اور میں نے ان دونوں(حج قران) کے لئے احرام باندھا ہے۔یہ سن کر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے فرمایا:"تم نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو پالیا"۔