سنن ابوداؤد ۔ جلد دوم ۔ محصول غنیمت اور امارت وخلافت سے متعلق ابتداء ۔ حدیث 1288

امام کے لئے مشرکین کا ہدیہ قبول کرنا

راوی: ابو توبہ , ربیع بن نافع , معاویہ ابن سلام , زید , عبداللہ ہوازنی

حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ يَعْنِي ابْنَ سَلَّامٍ عَنْ زَيْدٍ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَلَّامٍ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ الْهَوْزَنِيُّ قَالَ لَقِيتُ بِلَالًا مُؤَذِّنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَلَبَ فَقُلْتُ يَا بِلَالُ حَدِّثْنِي کَيْفَ کَانَتْ نَفَقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا کَانَ لَهُ شَيْئٌ کُنْتُ أَنَا الَّذِي أَلِي ذَلِکَ مِنْهُ مُنْذُ بَعَثَهُ اللَّهُ إِلَی أَنْ تُوُفِّيَ وَکَانَ إِذَا أَتَاهُ الْإِنْسَانُ مُسْلِمًا فَرَآهُ عَارِيًا يَأْمُرُنِي فَأَنْطَلِقُ فَأَسْتَقْرِضُ فَأَشْتَرِي لَهُ الْبُرْدَةَ فَأَکْسُوهُ وَأُطْعِمُهُ حَتَّی اعْتَرَضَنِي رَجُلٌ مِنْ الْمُشْرِکِينَ فَقَالَ يَا بِلَالُ إِنَّ عِنْدِي سَعَةً فَلَا تَسْتَقْرِضْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا مِنِّي فَفَعَلْتُ فَلَمَّا أَنْ کَانَ ذَاتَ يَوْمٍ تَوَضَّأْتُ ثُمَّ قُمْتُ لِأُؤَذِّنَ بِالصَّلَاةِ فَإِذَا الْمُشْرِکُ قَدْ أَقْبَلَ فِي عِصَابَةٍ مِنْ التُّجَّارِ فَلَمَّا أَنْ رَآنِي قَالَ يَا حَبَشِيُّ قُلْتُ يَا لَبَّاهُ فَتَجَهَّمَنِي وَقَالَ لِي قَوْلًا غَلِيظًا وَقَالَ لِي أَتَدْرِي کَمْ بَيْنَکَ وَبَيْنَ الشَّهْرِ قَالَ قُلْتُ قَرِيبٌ قَالَ إِنَّمَا بَيْنَکَ وَبَيْنَهُ أَرْبَعٌ فَآخُذُکَ بِالَّذِي عَلَيْکَ فَأَرُدُّکَ تَرْعَی الْغَنَمَ کَمَا کُنْتَ قَبْلَ ذَلِکَ فَأَخَذَ فِي نَفْسِي مَا يَأْخُذُ فِي أَنْفُسِ النَّاسِ حَتَّی إِذَا صَلَّيْتُ الْعَتَمَةَ رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَی أَهْلِهِ فَاسْتَأْذَنْتُ عَلَيْهِ فَأَذِنَ لِي فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي إِنَّ الْمُشْرِکَ الَّذِي کُنْتُ أَتَدَيَّنُ مِنْهُ قَالَ لِي کَذَا وَکَذَا وَلَيْسَ عِنْدَکَ مَا تَقْضِي عَنِّي وَلَا عِنْدِي وَهُوَ فَاضِحِي فَأْذَنْ لِي أَنْ آبَقَ إِلَی بَعْضِ هَؤُلَائِ الْأَحْيَائِ الَّذِينَ قَدْ أَسْلَمُوا حَتَّی يَرْزُقَ اللَّهُ رَسُولَهُ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يَقْضِي عَنِّي فَخَرَجْتُ حَتَّی إِذَا أَتَيْتُ مَنْزِلِي فَجَعَلْتُ سَيْفِي وَجِرَابِي وَنَعْلِي وَمِجَنِّي عِنْدَ رَأْسِي حَتَّی إِذَا انْشَقَّ عَمُودُ الصُّبْحِ الْأَوَّلِ أَرَدْتُ أَنْ أَنْطَلِقَ فَإِذَا إِنْسَانٌ يَسْعَی يَدْعُو يَا بِلَالُ أَجِبْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْطَلَقْتُ حَتَّی أَتَيْتُهُ فَإِذَا أَرْبَعُ رَکَائِبَ مُنَاخَاتٌ عَلَيْهِنَّ أَحْمَالُهُنَّ فَاسْتَأْذَنْتُ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبْشِرْ فَقَدْ جَائَکَ اللَّهُ بِقَضَائِکَ ثُمَّ قَالَ أَلَمْ تَرَ الرَّکَائِبَ الْمُنَاخَاتِ الْأَرْبَعَ فَقُلْتُ بَلَی فَقَالَ إِنَّ لَکَ رِقَابَهُنَّ وَمَا عَلَيْهِنَّ فَإِنَّ عَلَيْهِنَّ کِسْوَةً وَطَعَامًا أَهْدَاهُنَّ إِلَيَّ عَظِيمُ فَدَکَ فَاقْبِضْهُنَّ وَاقْضِ دَيْنَکَ فَفَعَلْتُ فَذَکَرَ الْحَدِيثَ ثُمَّ انْطَلَقْتُ إِلَی الْمَسْجِدِ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ فِي الْمَسْجِدِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَقَالَ مَا فَعَلَ مَا قِبَلَکَ قُلْتُ قَدْ قَضَی اللَّهُ کُلَّ شَيْئٍ کَانَ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَبْقَ شَيْئٌ قَالَ أَفَضَلَ شَيْئٍ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ انْظُرْ أَنْ تُرِيحَنِي مِنْهُ فَإِنِّي لَسْتُ بِدَاخِلٍ عَلَی أَحَدٍ مِنْ أَهْلِي حَتَّی تُرِيحَنِي مِنْهُ فَلَمَّا صَلَّی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَتَمَةَ دَعَانِي فَقَالَ مَا فَعَلَ الَّذِي قِبَلَکَ قَالَ قُلْتُ هُوَ مَعِي لَمْ يَأْتِنَا أَحَدٌ فَبَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ وَقَصَّ الْحَدِيثَ حَتَّی إِذَا صَلَّی الْعَتَمَةَ يَعْنِي مِنْ الْغَدِ دَعَانِي قَالَ مَا فَعَلَ الَّذِي قِبَلَکَ قَالَ قُلْتُ قَدْ أَرَاحَکَ اللَّهُ مِنْهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَکَبَّرَ وَحَمِدَ اللَّهَ شَفَقًا مِنْ أَنْ يُدْرِکَهُ الْمَوْتُ وَعِنْدَهُ ذَلِکَ ثُمَّ اتَّبَعْتُهُ حَتَّی إِذَا جَائَ أَزْوَاجَهُ فَسَلَّمَ عَلَی امْرَأَةٍ امْرَأَةٍ حَتَّی أَتَی مَبِيتَهُ فَهَذَا الَّذِي سَأَلْتَنِي عَنْهُ

ابو توبہ، ربیع بن نافع، معاویہ ابن سلام، زید، حضرت عبداللہ ہوازنی سے روایت ہے کہ میں نے مؤذن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت بلال سے حلب میں ملاقات کی اور ان سے عرض کیا کہ اے بلال مجھ سے بیان کرو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس طرح خرچ کرتے تھے؟ حضرت بلال نے جواب دیا کہ آپ کے پاس جو مال بھی ہوتا اس کے خرچ کرنے کی ذمہ داری میری ہی ہوتی تھی۔ جب سے اللہ نے آپ کو رسول بنایا وفات تک۔ جب آپ کے پاس کوئی مسلمان آتا اور آپ اس کو برہنہ دیکھتے تو آپ مجھ کو حکم فرماتے پس میں جاتا اور قرض لے کر اس کو چادر وغیرہ خرید دیتا پھر وہ کپڑا اس کو پہناتا اور اس کھانا کھلاتا یہاں تک کہ ایک دن ایک مشرک شخص مجھ سے ملا اور بولا اے بلال! میرے پاس بہت سا مال ہے پس تو میرے سوا کسی سے قرض نہ لیا کر لہذا میں نے ایسا ہی کیا۔ ایک دن وضو کر کے میں اذان دینے کے لئے کھڑا ہوا تو وہی مشرک شخص سوداگروں کی ایک جماعت کے ساتھ آن پہنچا۔ اس نے جب مجھے دیکھا تو بولا او حبشی! میں نے کہا ہاں کیا بات ہے؟ پس وہ میرے ساتھ سختی کرنے لگا اور مجھے برا بھلا کہنے لگا! بولا کیا تجھے خیال ہے کہ مہینہ پورا ہونے میں کتنے دن رہ گئے ہیں؟ میں نے کہا ہاں کچھ دن باقی رہ گئے ہیں۔ وہ بولا دیکھ مہینہ میں صرف چار دن باقی رہ گئے ہیں (اگر تو نے بروقت ادائیگی نہ کی) تو میں تجھ سے اپنا قرض لے کر ہی چھوڑوں گا اور تجھے ایسا ہی بنا دوں گا جیسا پہلے تھا یعنی بکریوں کا چرواہا بنا دوں گا۔ بلال کہتے ہیں کہ یہ سن کر میرے دل پر ایسا ہی گزرا جیسا کہ ایسے موقعہ لوگوں کے دل پر گزرتا ہے۔ یہاں تک کہ عشاء کی نماز پڑھ چکا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے گھر میں تشریف لے گئے پس میں نے اندر آنے کی اجازت چاہی آپ نے اجازت دے دی۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ پر میرے ماں باپ صدقے ہوں وہ مشرک جس سے میں قرض لیا کرتا تھا وہ مجھ سے لڑا اور مجھے بہت برا بھلا کہا اور آپ کے پاس اتنا مال نہیں ہے جس سے میرا قرض ادا ہو جائے اور نہ ہی میرے پاس ہے اور وہ مجھے ذلیل کرے گا۔ آپ مجھے اجازت دیجئے کہ میں ان قبیلوں میں سے کسی کے پاس بھاگ جاؤں جو اسلام لا چکے ہیں (اور مدینہ سے باہر رہتے ہیں) یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو اس قدر مال عطاء فرما دے جس سے میرا قرضہ ادا ہو جائے یہ کہہ کر میں وہاں سے نکل آیا اور اپنے گھر پہنچا اور اپنی تلوار موزہ جوتا اور ڈھال کو اپنے سرہانے رکھ لیا (تا کہ صبح ہوتے ہی بھاگ جاؤں) جب صبح کی روشنی نمودار ہوئی تو میں نے بھاگنے کا ارادہ کیا۔ اتنے میں ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا اور بولا اے بلا ل! تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یاد فرمایا ہے میں چلا اور آپ کے پاس پہنچا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ چار اونٹ بیٹھے ہوئے ہیں اور ان پر سامان لدا ہوا ہے۔ میں نے آپ سے اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ آپ نے فرمایا اے بلال! خوش ہو جا اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تیرے قرض کی ادائیگی کے لئے مال بھیج دیا ہے اس کے بعد آپ نے فرمایا کیا تو نے وہ چار لدے ہوئے جانور نہیں دیکھے؟ میں نے کہا کیوں نہیں آپ نے فرمایا جا وہ جانور بھی تو لے لے۔ اور جو ان پر سامان لدا ہوا ہے وہ بھی لے لے۔ ان پر کپڑا اور غلہ لدا ہوا ہے جو مجھ کو فدک کے حاکم نے بھیجا ہے تو ان کو لے لے اور اپنا قرض ادا کر دے۔ پس میں نے ایسا ہی کیا۔ بلال کہتے ہیں کہ پھر میں مسجد میں آیا دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تشریف فرما ہیں میں نے سلام کیا آپ نے پوچھا تجھے اس مال سے کیا فائدہ ہوا ہے؟ میں نے عرض کیا اللہ تعالیٰ نے سب قرض ادا کر دیا جو اس کے رسول پر تھا اور اب کچھ باقی نہیں رہا۔ آپ نے پوچھا کہ اس مال میں سے کچھ بچا ہے؟ میں نے کہا ہاں۔ آپ نے فرمایا جو بچا ہے جلدی سے اس کو خرچ کر ڈال۔ جب تک کہ تو مجھے (اس کو خرچ کر کے) بے فکر نہ کر دے گا میں اپنی کسی بیوی کے پاس نہیں جاؤں گا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عشاء کی نماز پڑھ لی تو مجھے بلایا اور فرمایا وہ مال کیا ہوا جو تیرے پاس بچ رہا تھا؟ میں نے عرض کیا وہ مال میرے پاس ہے۔ میرے پاس اس مال کا کوئی طالب ہی نہیں آیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس رات مسجد میں رہے راوی نے مزید حدیث بیان کی کہ جب آپ دوسرے دن عشاء کی نماز سے فارغ ہوئے تو مجھے بلایا اور دریافت فرمایا کہ اس مال کا کیا ہوا جو تیرے پاس بچ رہا تھا؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اللہ نے آپ کو اس مال سے بے فکر کر دیا۔ (یعنی اس کو ضرورت مند کو دے دیا ہے) یہ سن کر آپ نے تکبیر کہی اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور اس کی تعریف کی کہ اس نے آپ کو اس مال سے نجات دے دی۔ آپ کو اس بات کا خوف تھا کہ آپ کو موت آ جائے اور وہ مال آپ ہی کے پاس رہے پھر میں آپ کے پیچھے ہو لیا یہاں تک کہ آپ اپنی ازواج کے پاس گئے اور ہر بیوی کو فردًا فردًا سلام کیا یہاں تک کہ آپ اپنی سونے کی جگہ پر تشریف لے گئے۔ اے عبد اللہ! یہ ہے اس سوال کا جواب جو تم نے مجھ سے کیا تھا۔

Narrated Abdullah al-Hawzani:
I met Bilal, the Mu'adhdhin of the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) at Aleppo, and said: Bilal, tell me, what was the financial position of the Apostle of Allah (peace_be_upon_him)?
He said: He had nothing. It was I who managed it on his behalf since the day Allah made him Prophet of Allah (peace_be_upon_him) until he died. When a Muslim man came to him and he found him naked, he ordered me (to clothe him). I would go, borrow (some money), and purchase a cloak for him. I would then clothe him and feed him.
A man from the polytheists met me and said: I am well off, Bilal. Do not borrow money from anyone except me. So I did accordingly. One day when I performed ablution and stood up to make call to prayer, the same polytheist came along with a body of merchants.
When he saw me, he said: O Abyssinian. I said: I am at your service. He met me with unpleasant looks and said harsh words to me. He asked me: Do you know how many days remain in the completion of this month? I replied: The time is near. He said: Only four days remain in the completion of this month. I shall then take that which is due from you (i.e. loan), and then shall return you to tend the sheep as you did before. I began to think in my mind what people think in their minds (on such occasions). When I offered the night prayer, the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) returned to his family. I sought permission from him and he gave me permission.
I said: Apostle of Allah, may my parents be sacrificed for you, the polytheist from whom I used to borrow money said to me such-and-such. Neither you nor I have anything to pay him for me, and he will disgrace me. So give me permission to run away to some of those tribes who have recently embraced Islam until Allah gives His Apostle (peace_be_upon_him) something with which he can pay (the debt) for me. So I came out and reached my house. I placed my sword, waterskin (or sheath), shoes and shield near my head. When dawn broke, I intended to be on my way.
All of a sudden I saw a man running towards me and calling: Bilal, return to the Apostle of Allah (peace_be_upon_him). So I went till I reached him. I found four mounts kneeling on the ground with loads on them. I sought permission.
The Apostle of Allah (peace_be_upon_him) said to me: Be glad, Allah has made arrangements for the payment (of your debt). He then asked: Have you not seen the four mounts kneeling on the ground?
I replied: Yes. He said: You may have these mounts and what they have on them. There are clothes and food on them, presented to me by the ruler of Fadak. Take them away and pay off your debt. I did so.
He then mentioned the rest of the tradition. I then went to the mosque and found that the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) was sitting there. I greeted him.
He asked: What benefit did you have from your property? I replied: Allah Most High paid everything which was due from the Apostle of Allah (peace_be_upon_him). Nothing remains now.
He asked: Did anything remain (from that property)? I said: Yes. He said: Look, if you can give me some comfort from it, for I shall not visit any member of my family until you give me some comfort from it. When the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) offered the night prayer, he called me and said: What is the position of that which you had with you (i.e. property)?
I said: I still have it, no one came to me. The Apostle of Allah (peace_be_upon_him) passed the night in the mosque.
He then narrated the rest of the tradition. Next day when he offered the night prayer, he called me and asked: What is the position of that which you had (i.e. the rest of the property)?
I replied: Allah has given you comfort from it, Apostle of Allah. He said: Allah is Most Great, and praised Allah, fearing lest he should die while it was with him. I then followed him until he came to his wives and greeted each one of them and finally he came to his place where he had to pass the night. This is all for which you asked me.

یہ حدیث شیئر کریں