بنونضیر کے یہودیوں کے احوال
راوی: محمد بن داؤد بن سفیان , عبدالرزاق , معمر , زہری , عبدالرحمن بن کعب بن مالک
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُفْيَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ کُفَّارَ قُرَيْشٍ کَتَبُوا إِلَی ابْنِ أُبَيٍّ وَمَنْ کَانَ يَعْبُدُ مَعَهُ الْأَوْثَانَ مِنْ الْأَوْسِ وَالْخَزْرَجِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ بِالْمَدِينَةِ قَبْلَ وَقْعَةِ بَدْرٍ إِنَّکُمْ آوَيْتُمْ صَاحِبَنَا وَإِنَّا نُقْسِمُ بِاللَّهِ لَتُقَاتِلُنَّهُ أَوْ لَتُخْرِجُنَّهُ أَوْ لَنَسِيرَنَّ إِلَيْکُمْ بِأَجْمَعِنَا حَتَّی نَقْتُلَ مُقَاتِلَتَکُمْ وَنَسْتَبِيحَ نِسَائَکُمْ فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِکَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ وَمَنْ کَانَ مَعَهُ مِنْ عَبَدَةِ الْأَوْثَانِ اجْتَمَعُوا لِقِتَالِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِکَ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقِيَهُمْ فَقَالَ لَقَدْ بَلَغَ وَعِيدُ قُرَيْشٍ مِنْکُمْ الْمَبَالِغَ مَا کَانَتْ تَکِيدُکُمْ بِأَکْثَرَ مِمَّا تُرِيدُونَ أَنْ تَکِيدُوا بِهِ أَنْفُسَکُمْ تُرِيدُونَ أَنْ تُقَاتِلُوا أَبْنَائَکُمْ وَإِخْوَانَکُمْ فَلَمَّا سَمِعُوا ذَلِکَ مِنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَفَرَّقُوا فَبَلَغَ ذَلِکَ کُفَّارَ قُرَيْشٍ فَکَتَبَتْ کُفَّارُ قُرَيْشٍ بَعْدَ وَقْعَةِ بَدْرٍ إِلَی الْيَهُودِ إِنَّکُمْ أَهْلُ الْحَلْقَةِ وَالْحُصُونِ وَإِنَّکُمْ لَتُقَاتِلُنَّ صَاحِبَنَا أَوْ لَنَفْعَلَنَّ کَذَا وَکَذَا وَلَا يَحُولُ بَيْنَنَا وَبَيْنَ خَدَمِ نِسَائِکُمْ شَيْئٌ وَهِيَ الْخَلَاخِيلُ فَلَمَّا بَلَغَ کِتَابُهُمْ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْمَعَتْ بَنُو النَّضِيرِ بِالْغَدْرِ فَأَرْسَلُوا إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْرُجْ إِلَيْنَا فِي ثَلَاثِينَ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِکَ وَلْيَخْرُجْ مِنَّا ثَلَاثُونَ حَبْرًا حَتَّی نَلْتَقِيَ بِمَکَانِ الْمَنْصَفِ فَيَسْمَعُوا مِنْکَ فَإِنْ صَدَّقُوکَ وَآمَنُوا بِکَ آمَنَّا بِکَ فَقَصَّ خَبَرَهُمْ فَلَمَّا کَانَ الْغَدُ غَدَا عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْکَتَائِبِ فَحَصَرَهُمْ فَقَالَ لَهُمْ إِنَّکُمْ وَاللَّهِ لَا تَأْمَنُونَ عِنْدِي إِلَّا بِعَهْدٍ تُعَاهِدُونِي عَلَيْهِ فَأَبَوْا أَنْ يُعْطُوهُ عَهْدًا فَقَاتَلَهُمْ يَوْمَهُمْ ذَلِکَ ثُمَّ غَدَا الْغَدُ عَلَی بَنِي قُرَيْظَةَ بِالْکَتَائِبِ وَتَرَکَ بَنِي النَّضِيرِ وَدَعَاهُمْ إِلَی أَنْ يُعَاهِدُوهُ فَعَاهَدُوهُ فَانْصَرَفَ عَنْهُمْ وَغَدَا عَلَی بَنِي النَّضِيرِ بِالْکَتَائِبِ فَقَاتَلَهُمْ حَتَّی نَزَلُوا عَلَی الْجَلَائِ فَجَلَتْ بَنُو النَّضِيرِ وَاحْتَمَلُوا مَا أَقَلَّتْ الْإِبِلُ مِنْ أَمْتِعَتِهِمْ وَأَبْوَابِ بُيُوتِهِمْ وَخَشَبِهَا فَکَانَ نَخْلُ بَنِي النَّضِيرِ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً أَعْطَاهُ اللَّهُ إِيَّاهَا وَخَصَّهُ بِهَا فَقَالَ وَمَا أَفَائَ اللَّهُ عَلَی رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِکَابٍ يَقُولُ بِغَيْرِ قِتَالٍ فَأَعْطَی النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَکْثَرَهَا لِلْمُهَاجِرِينَ وَقَسَمَهَا بَيْنَهُمْ وَقَسَمَ مِنْهَا لِرَجُلَيْنِ مِنْ الْأَنْصَارِ وَکَانَا ذَوِي حَاجَةٍ لَمْ يَقْسِمْ لِأَحَدٍ مِنْ الْأَنْصَارِ غَيْرِهِمَا وَبَقِيَ مِنْهَا صَدَقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّتِي فِي أَيْدِي بَنِي فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا
محمد بن داؤد بن سفیان، عبدالرزاق، معمر، زہری، حضرت عبدالرحمن بن کعب بن مالک سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک شخص سے سنا جو اصحاب رسول امین سے تھے کہ قریش کے کافروں نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ان ساتھیوں کو جو بت پرستی میں اس کے شریک تھے۔ اور اوس وخزرج سے تعلق رکھتے تھے لکھا اور اس زمانہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ میں قیام فرما تھے کہ جنگ بدر سے پہلے کہ تم نے ہمارے ساتھی (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جگہ دی۔ ہم قسم کھا کر کہتے ہیں کہ تم ان سے لڑو یا اپنی سر زمین سے نکال دو ورنہ ہم سب مل کر تم پر حملہ کریں گے اور تم میں سے جو لوگ لڑ سکنے والے ہوں گے ان سب کو قتل کر ڈالیں گے اور تمہاری عورتوں کو اپنے تصرف میں لے آئیں گے۔ جب یہ خط عبداللہ بن ابی کو پہنچا اور اس کے ان ساتھیوں کو جو بت پرستی کرتے تھے تو وہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لڑنے کے لئے جمع ہو گئے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے ان سے جا کر ملاقات کی اور ان کو سمجھایا کہ قریش نے جو تم کو دھمکایا ہے وہ تمہارے نزدیک انتہا کی دھمکی ہے حالا نکہ قریش تم کو اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتے جتنا تم خود اپنے آپ کو نقصان پہنچاؤ گے کیونکہ اس صورت میں تمہیں اپنے بیٹوں اور بھائیوں سے لڑنا پڑے گا۔ جب ان لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ بات سنی تو وہ متفرق ہو گئے (یعنی جنگ کا ارادہ ختم کر دیا) پھر یہ خبر قریش کے کافروں کو پہنچی تو انہوں جنگ بدر کے بعد یہودیوں کو لکھا کہ تم اسلحہ اور سازوسامان والے اور قلعہ والے ہو لہذا تم ہمارے ساتھی (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لڑو ورنہ ہم ایسا اور ایسا کریں گے (یعنی تم کو قتل کریں گے) اور ہمارے اور تمہاری عورتوں کی پازیبوں کے درمیان کوئی چیزحائل نہ ہوگی (یعنی ہم تمہاری عورتوں کو اپنے تصرف میں لے کر ان سے مجامعت کریں گے) پھر جب اس خط کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہنچی تو بنی نضیر کے یہودیوں نے عہد شکنی اور دھوکہ دہی پر اتفاق کر لیا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کہلا بھیجا کہ آپ اپنے اصحاب میں سے تیس آدمی لے کر نکلیے اور ہم میں سے تیس عالم نکل کر آپ سے کسی درمیانی مقام پر ملاقات کریں گے۔ ہمارے وہ عالم آپ کی گفتگو سنیں گے اگر وہ آپ کی تصدیق کر دیں گے اور ایمان لے آئیں گے تو ہم سب بھی آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ آپ نے یہ تجویز اپنے اصحاب کے سامنے بھی رکھی جب دوسرا دن ہوا تو آپ اپنے ساتھ لشکر لے کر ان کے پاس پہنچے اور ان سے فرمایا واللہ مجھے تم پر اس وقت تک اطمینان نہ ہوگا جب تک تم مجھ سے عہد وقرار نہ کرلو لیکن انہوں نے عہد و پیمان سے انکار کر دیا پس آپ نے ان سے دن بھر جنگ کی۔ پھر دوسرے دن بنی قریظہ کے یہودیوں پر گئے لشکر لے کر اور بنی نضیر کو چھوڑ دیا اور ان سے کہا تم عہد کرو پس انہوں نے معاہدہ کر لیا (جنگ نہ کرنے پر) لیکن بعد میں وہ پھر گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگلے دن لشکر لے کر بنی نضیر پر گئے اور ان سے لڑے یہاں تک کہ وہ جلاوطنی پر راضی ہو گئے۔ پھر وہ جلاوطن ہوئے اس حال میں کہ جو کچھ ان کے اونٹوں سے مال واسباب اٹھ سکا اٹھا لیا اور ان کے کھجوروں کے باغات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ملے یہ اللہ تعالیٰ نے بطور خاص آپ ہی کو مرحمت فرمائے اور ارشاد ہوا! جو کچھ عنایت فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو کافروں کے مال میں سے جن پر نہ تم نے گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ یعنی بغیر جنگ کے حاصل ہوا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا اکثر حصہ مہاجرین کو دے دیا اور ان میں تقسیم فرما دیا اور اس میں دوضرورت مند انصاریوں کو بھی دیا لیکن ان دو کے علاوہ آپ نے کسی انصاری کو اس میں سے نہ دیا اور جو باقی بچا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صدقہ قرار پایا جو حضرت فاطمہ کے اختیار میں رہا۔
Narrated A man from the companions of the Prophet:
AbdurRahman ibn Ka'b ibn Malik reported on the authority of a man from among the companions of the Prophet (peace_be_upon_him): The infidels of the Quraysh wrote (a letter) to Ibn Ubayy and to those who worshipped idols from al-Aws and al-Khazraj, while the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) was at that time at Medina before the battle of Badr.
(They wrote): You gave protection to our companion. We swear by Allah, you should fight him or expel him, or we shall come to you in full force, until we kill your fighters and appropriate your women.
When this (news) reached Abdullah ibn Ubayy and those who were worshippers of idols, with him they gathered together to fight the Apostle of Allah (peace_be_upon_him).
When this news reached the Apostle of Allah (peace_be_upon_him), he visited them and said: The threat of the Quraysh to you has reached its end. They cannot contrive a plot against you, greater than what you yourselves intended to harm you. Are you willing to fight your sons and brethren? When they heard this from the Prophet (peace_be_upon_him), they scattered. This reached the infidels of the Quraysh.
The infidels of the Quraysh again wrote (a letter) to the Jews after the battle of Badr: You are men of weapons and fortresses. You should fight our companion or we shall deal with you in a certain way. And nothing will come between us and the anklets of your women. When their letter reached the Prophet (peace_be_upon_him), they gathered Banu an-Nadir to violate the treaty.
They sent a message to the Prophet (peace_be_upon_him): Come out to us with thirty men from your companions, and thirty rabbis will come out from us till we meet at a central place where they will hear you. If they testify to you and believe in you, we shall believe in you. The narrator then narrated the whole story.
When the next day came, the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) went out in the morning with an army, and surrounded them.
He told them: I swear by Allah, you will have no peace from me until you conclude a treaty with me. But they refused to conclude a treaty with him. He therefore fought them the same day.
Next he attacked Banu Quraysh with an army in the morning, and left Banu an-Nadir. He asked them to sign a treaty and they signed it.
He turned away from them and attacked Banu an-Nadir with an army. He fought with them until they agreed to expulsion. Banu an-Nadir were deported, and they took with them whatever their camels could carry, that is, their property, the doors of their houses, and their wood. Palm-trees were exclusively reserved for the Apostle of Allah (peace_be_upon_him). Allah bestowed them upon him and gave them him as a special portion.
He (Allah), the Exalted, said: What Allah has bestowed on His Apostle (and taken away) from them, for this ye made no expedition with either camel corps or cavalry." He said: "Without fighting." So the Prophet (peace_be_upon_him) gave most of it to the emigrants and divided it among them; and he divided some of it between two men from the helpers, who were needy, and he did not divide it among any of the helpers except those two. The rest of it survived as the sadaqah of the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) which is in the hands of the descendants of Fatimah (Allah be pleased with her).