عرافت کا بیان
راوی: مسدد , بشر بن مفضل , غالب قطان
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ حَدَّثَنَا غَالِبٌ الْقَطَّانُ عَنْ رَجُلٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّهُمْ کَانُوا عَلَی مَنْهَلٍ مِنْ الْمَنَاهِلِ فَلَمَّا بَلَغَهُمْ الْإِسْلَامُ جَعَلَ صَاحِبُ الْمَائِ لِقَوْمِهِ مِائَةً مِنْ الْإِبِلِ عَلَی أَنْ يُسْلِمُوا فَأَسْلَمُوا وَقَسَمَ الْإِبِلَ بَيْنَهُمْ وَبَدَا لَهُ أَنْ يَرْتَجِعَهَا مِنْهُمْ فَأَرْسَلَ ابْنَهُ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهُ ائْتِ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْ لَهُ إِنَّ أَبِي يُقْرِئُکَ السَّلَامَ وَإِنَّهُ جَعَلَ لِقَوْمِهِ مِائَةً مِنْ الْإِبِلِ عَلَی أَنْ يُسْلِمُوا فَأَسْلَمُوا وَقَسَمَ الْإِبِلَ بَيْنَهُمْ وَبَدَا لَهُ أَنْ يَرْتَجِعَهَا مِنْهُمْ أَفَهُوَ أَحَقُّ بِهَا أَمْ هُمْ فَإِنْ قَالَ لَکَ نَعَمْ أَوْ لَا فَقُلْ لَهُ إِنَّ أَبِي شَيْخٌ کَبِيرٌ وَهُوَ عَرِيفُ الْمَائِ وَإِنَّهُ يَسْأَلُکَ أَنْ تَجْعَلَ لِي الْعِرَافَةَ بَعْدَهُ فَأَتَاهُ فَقَالَ إِنَّ أَبِي يُقْرِئُکَ السَّلَامَ فَقَالَ وَعَلَيْکَ وَعَلَی أَبِيکَ السَّلَامُ فَقَالَ إِنَّ أَبِي جَعَلَ لِقَوْمِهِ مِائَةً مِنْ الْإِبِلِ عَلَی أَنْ يُسْلِمُوا فَأَسْلَمُوا وَحَسُنَ إِسْلَامُهُمْ ثُمَّ بَدَا لَهُ أَنْ يَرْتَجِعَهَا مِنْهُمْ أَفَهُوَ أَحَقُّ بِهَا أَمْ هُمْ فَقَالَ إِنْ بَدَا لَهُ أَنْ يُسْلِمَهَا لَهُمْ فَلْيُسْلِمْهَا وَإِنْ بَدَا لَهُ أَنْ يَرْتَجِعَهَا فَهُوَ أَحَقُّ بِهَا مِنْهُمْ فَإِنْ هُمْ أَسْلَمُوا فَلَهُمْ إِسْلَامُهُمْ وَإِنْ لَمْ يُسْلِمُوا قُوتِلُوا عَلَی الْإِسْلَامِ فَقَالَ إِنَّ أَبِي شَيْخٌ کَبِيرٌ وَهُوَ عَرِيفُ الْمَائِ وَإِنَّهُ يَسْأَلُکَ أَنْ تَجْعَلَ لِي الْعِرَافَةَ بَعْدَهُ فَقَالَ إِنَّ الْعِرَافَةَ حَقٌّ وَلَا بُدَّ لِلنَّاسِ مِنْ الْعُرَفَائِ وَلَکِنَّ الْعُرَفَائَ فِي النَّارِ
مسدد، بشر بن مفضل، حضرت غالب قطان سے بسند ایک شخص بواسطہ والد بروایت دادا روایت ہے کہ کچھ لوگ ایک چشمہ کے کنارے آباد تھے جب ان کو دین اسلام کی خبر پہنچی تو چشمہ کے مالک نے اپنی قوم کو اس شرط پر سو اونٹ دینے کی پیش کش کی کہ وہ اسلام قبول کر لیں۔ پس وہ لوگ مسلمان ہو گئے اور اس نے اونٹ ان میں تقسیم کردیئے اس کے بعد اس نے اپنے اونٹ واپس لینا چاہے تو اس نے اپنے بیٹے کو بلا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بھیجا۔ اس نے اپنے بیٹے سے کہا کہ تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جا اور ان سے کہنا کہ میرے والد نے آپ کو سلام کہا ہے اور کہنا کہ میرے والد نے اس شرط پر اپنی قوم کو سو اونٹ دینے مانے تھے کہ لوگ اسلام قبول کرلیں پس ان لوگوں نے اسلام قبول کر لیا اور میرے والد نے حسب وعدہ اونٹ ان میں تقسیم کر دیئے لیکن اب وہ چاہتے ہیں کہ ان سے اپنے اونٹ واپس لے لیں تو کیا اب ان اونٹوں کے حقدار میرے والد ہیں یا وہ لوگ؟ آپ جواب اثبات میں دیں یا نفی میں ہر دو صورت میں ان سے مزید یہ عرض کرنا کہ میرے والد بہت بوڑھے ہو چکے ہیں اور وہ اس چشمہ کے عریف (نگران) ہیں وہ چاہتے ہیں کہ آپ ان کے بعد اس چشمہ کا عریف مجھ کو بنادیں پس وہ لڑکا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچا اور عرض کیا یا رسول اللہ! میرے والد نے آپ کو سلام عرض کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تجھ پر اور تیرے باپ پر سلام ہو۔ پھر اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے والد نے اپنی قوم کو سو اونٹ اس شرط پر دینے کیلئے کہا تھا کہ وہ اسلام قبول کر لیں۔ پس انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور اب صحیح معنی میں وہ مسلمان ہیں۔ لیکن اب میرے والد ان سے اپنے اونٹ واپس لینا چاہتے ہیں۔ فرمائیے ان اونٹوں کے حقدار میرے والد ہیں یا وہ لوگ؟ آپ نے فرمایا اگر تیرا باپ ان اونٹوں کو لوگوں کو دینا چاہے تو وہ دے سکتا ہے اور اگر وہ واپس لینا چاہے تو وہ اس کا بھی حقدار ہے رہے وہ لوگ جو مسلمان ہوئے ہیں تو وہ لوگ اپنے اسلام کا فائدہ خود اٹھائیں گے اور اگر اسلام قبول نہ کریں گے تو اسلامی قاعدہ کی رو سے قتل کئے جائیں گے پھر اس نے کہا یا رسول اللہ! میرے والد بہت بوڑھے ہو چکے ہیں اور وہ اس چشمہ کے عریف (نگہبان وذمہ دار) ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ آپ ان کے بعد عرافت کی ذمہ داری مجھ کو سونپ دیں۔ آپ نے فرمایا بیشک عرافت ضروری ہے اور لوگوں کو عریف کے بغیر چارہ بھی نہیں ہے لیکن عریف جہنم میں جائیں گے۔
Narrated Ghalib al-Qattan:
Ghalib quoted a man who stated on the authority of his father that his grandfather reported: They lived at one of the springs. When Islam reached them, the master of the spring offered his people one hundred camels if they embraced Islam. So they embraced Islam, and he distributed the camels among them. But it occurred to him that he should take the camels back from them.
He sent his son to the Prophet (peace_be_upon_him) and said to him: Go to the Prophet (peace_be_upon_him) and tell him: My father extends his greetings to you. He asked his people to give them one hundred camels if they embraced Islam, and they embraced Islam. He divided the camels among them. But it occurred to him then that he should withdraw his camels from them. Is he more entitled to them or we? If he says: Yes or no, then tell him: My father is an old man, and he is the chief of the people living at the water. He has requested you to make me chief after him.
He came to him and said: My father has extended his greetings to you. He replied: On you and you father be peace. He said: My father asked his people to give them one hundred camels if they embraced Islam. So they embraced Islam, and their belief in Islam is good. Then it occurred to him that he should take his camels back from them. Is he more entitled to them or are they?
He said: If he likes to give them the camels, he may give them; and if he likes to take them back, he is more entitled to them than his people. If they embraced Islam, then for them is their Islam. If they do not embrace Islam, they will be fought against in the cause of Islam.
He said: My father is an old man; he is the chief of the people living at the spring. He has asked you to appoint me chief after him.
He replied: The office of a chief is necessary, for people must have chiefs, but the chiefs will go to Hell.