وقف کا بیان
راوی: مسدد , یزید بن زریع , مسدد , بشر بن مفضل , مسدد , یحیی , ابن عون , نافع , ابن عمر
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ح و حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ ح و حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَی عَنْ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ أَصَابَ عُمَرُ أَرْضًا بِخَيْبَرَ فَأَتَی النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَصَبْتُ أَرْضًا لَمْ أُصِبْ مَالًا قَطُّ أَنْفَسَ عِنْدِي مِنْهُ فَکَيْفَ تَأْمُرُنِي بِهِ قَالَ إِنْ شِئْتَ حَبَّسْتَ أَصْلَهَا وَتَصَدَّقْتَ بِهَا فَتَصَدَّقَ بِهَا عُمَرُ أَنَّهُ لَا يُبَاعُ أَصْلُهَا وَلَا يُوهَبُ وَلَا يُوَرَّثُ لِلْفُقَرَائِ وَالْقُرْبَی وَالرِّقَابِ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَزَادَ عَنْ بِشْرٍ وَالضَّيْفِ ثُمَّ اتَّفَقُوا لَا جُنَاحَ عَلَی مَنْ وَلِيَهَا أَنْ يَأْکُلَ مِنْهَا بِالْمَعْرُوفِ وَيُطْعِمَ صَدِيقًا غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ فِيهِ زَادَ عَنْ بِشْرٍ قَالَ وَقَالَ مُحَمَّدٌ غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ مَالًا
مسدد، یزید بن زریع، مسدد، بشر بن مفضل، مسدد، یحیی، ابن عون، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ (ان کے والد) حضرت عمر کو خیبر میں ایک زمین ملی۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے ایک ایسی زمین ملی ہے جس سے بہتر مجھے کبھی نہ ملی تھی۔ اس کے بارے میں آپ کا کیا حکم ہے؟ (یعنی کیا میں اسے صدقہ کردوں؟ آپ نے فرمایا اگر تو چاہے تو زمین کی ملکیت روک لے اور اس کے نفع کو صدقہ کر دے۔ پس حضرت عمر نے اس کے نفع کو صدقہ کر دیا۔ (اسی کا نام وقف ہے) اس شرط پر کہ اصل زمین کو نہ بیچا جائے گا اور نہ ہبہ کیا جائے گا اور نہ وارثت میں منتقل کیا جائے گا بلکہ اس سے نفع اٹھائیں فقیر رشتہ دار غلام اپنی آزادی میں اور مسافر اور مجاہد اور بشر کی روایت میں مہمان کا بھی اضافہ ہے۔ پھر سب راوی متفق ہو گئے کہ جو شخص اس کا متولی ہے وہ معروف طریقہ پر اس میں سے کھا سکتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور ان دوستوں کو بھی کھلائے جو مالدار نہ ہوں۔ اور دوسری روایت میں ہے کہ وہ اس میں سے مال جمع کرنے والے نہ ہوں۔