امامت کا مستحق کون ہے؟
راوی: موسی بن اسمعیل , حماد , ایوب , عمر بن سلمہ
حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ عَنْ عَمْرِو بْنِ سَلَمَةَ قَالَ کُنَّا بِحَاضِرٍ يَمُرُّ بِنَا النَّاسُ إِذَا أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَکَانُوا إِذَا رَجَعُوا مَرُّوا بِنَا فَأَخْبَرُونَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ کَذَا وَکَذَا وَکُنْتُ غُلَامًا حَافِظًا فَحَفِظْتُ مِنْ ذَلِکَ قُرْآنًا کَثِيرًا فَانْطَلَقَ أَبِي وَافِدًا إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَفَرٍ مِنْ قَوْمِهِ فَعَلَّمَهُمْ الصَّلَاةَ فَقَالَ يَؤُمُّکُمْ أَقْرَؤُکُمْ وَکُنْتُ أَقْرَأَهُمْ لِمَا کُنْتُ أَحْفَظُ فَقَدَّمُونِي فَکُنْتُ أَؤُمُّهُمْ وَعَلَيَّ بُرْدَةٌ لِي صَغِيرَةٌ صَفْرَائُ فَکُنْتُ إِذَا سَجَدْتُ تَکَشَّفَتْ عَنِّي فَقَالَتْ امْرَأَةٌ مِنْ النِّسَائِ وَارُوا عَنَّا عَوْرَةَ قَارِئِکُمْ فَاشْتَرَوْا لِي قَمِيصًا عُمَانِيًّا فَمَا فَرِحْتُ بِشَيْئٍ بَعْدَ الْإِسْلَامِ فَرَحِي بِهِ فَکُنْتُ أَؤُمُّهُمْ وَأَنَا ابْنُ سَبْعِ سِنِينَ أَوْ ثَمَانِ سِنِينَ
موسی بن اسماعیل، حماد، ایوب، حضرت عمرو بن سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم ایک ایسی جگہ رہتے ہیں جہاں پر لوگ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آتے جاتے ٹھہرتے تھے پس جب وہ لوگ واپس ہوتے تو بھی ان کا گزر ہمارے پاس سے ہوتا۔ لہذا وہ ہمیں بتاتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا اور ایسا فرمایا ہے اور میں قوی حافظہ والا لڑکا تھا اس لئے میں نے (ان لوگوں سے سن سنا کر) قرآن پاک کا بہت سا حصہ یاد کر لیا تھا ایک مرتبہ میرے والد صاحب اپنی قوم کے چند لوگوں کے ساتھ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو نماز کی تعلیم دی اور فرمایا۔ امامت وہ شخص کرے جو قرآن کو زیادہ جانتا ہو اور میں قرآن کو بہت زیادہ جانتا تھا (کیو نکہ میں نے پہلے ہی سے قرآن کو یاد کر رکھا تھا) لہذا ان لوگوں نے مجھے امام بنا دیا پس میں ان کی امامت کرتا تھا اور میں زرد رنگ کی ایک مختصر سی چادر اوڑھے رکھتا تھا جس کی بنا پر جب میں سجدہ کرتا تو (میرا) ستر کھل جاتا۔ (یہ دیکھ کر) ایک عورت بولی اپنے قاری کا ستر ہم سے چھپاؤ تو انہوں نے مجھے عمان کا بنا ہوا ایک کرتہ خرید کر دیا اور اسلام کے بعد مجھے اس کرتہ سے زیادہ خوشی کسی چیز کی نہیں ہوتی تھی۔ پس میں ان کی امامت کرتا تھا اور اس وقت میں سات یا آٹھ سال کا لڑکا تھا۔