جساسہ کے قصہ کے بیان میں
راوی: عبدالوارث ابن عبدالصمد بن عبدالوارث حجاج بن شاعر , عبدالوارث بن عبدالصمد ابی جدی حسین بن ذکوان بن بریدہ , عامر بن شراحیل شعبی
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ بْنِ عَبْدِ الْوَارِثِ وَحَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ کِلَاهُمَا عَنْ عَبْدِ الصَّمَدِ وَاللَّفْظُ لِعَبْدِ الْوَارِثِ بْنِ عَبْدِ الصَّمَدِ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ جَدِّي عَنْ الْحُسَيْنِ بْنِ ذَکْوَانَ حَدَّثَنَا ابْنُ بُرَيْدَةَ حَدَّثَنِي عَامِرُ بْنُ شَرَاحِيلَ الشَّعْبِيُّ شَعْبُ هَمْدَانَ أَنَّهُ سَأَلَ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ أُخْتَ الضَّحَّاکِ بْنِ قَيْسٍ وَکَانَتْ مِنْ الْمُهَاجِرَاتِ الْأُوَلِ فَقَالَ حَدِّثِينِي حَدِيثًا سَمِعْتِيهِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تُسْنِدِيهِ إِلَی أَحَدٍ غَيْرِهِ فَقَالَتْ لَئِنْ شِئْتَ لَأَفْعَلَنَّ فَقَالَ لَهَا أَجَلْ حَدِّثِينِي فَقَالَتْ نَکَحْتُ ابْنَ الْمُغِيرَةِ وَهُوَ مِنْ خِيَارِ شَبَابِ قُرَيْشٍ يَوْمَئِذٍ فَأُصِيبَ فِي أَوَّلِ الْجِهَادِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا تَأَيَّمْتُ خَطَبَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَخَطَبَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی مَوْلَاهُ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ وَکُنْتُ قَدْ حُدِّثْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَحَبَّنِي فَلْيُحِبَّ أُسَامَةَ فَلَمَّا کَلَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ أَمْرِي بِيَدِکَ فَأَنْکِحْنِي مَنْ شِئْتَ فَقَالَ انْتَقِلِي إِلَی أُمِّ شَرِيکٍ وَأُمُّ شَرِيکٍ امْرَأَةٌ غَنِيَّةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ عَظِيمَةُ النَّفَقَةِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَنْزِلُ عَلَيْهَا الضِّيفَانُ فَقُلْتُ سَأَفْعَلُ فَقَالَ لَا تَفْعَلِي إِنَّ أُمَّ شَرِيکٍ امْرَأَةٌ کَثِيرَةُ الضِّيفَانِ فَإِنِّي أَکْرَهُ أَنْ يَسْقُطَ عَنْکِ خِمَارُکِ أَوْ يَنْکَشِفَ الثَّوْبُ عَنْ سَاقَيْکِ فَيَرَی الْقَوْمُ مِنْکِ بَعْضَ مَا تَکْرَهِينَ وَلَکِنْ انْتَقِلِي إِلَی ابْنِ عَمِّکِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو ابْنِ أُمِّ مَکْتُومٍ وَهُوَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي فِهْرٍ فِهْرِ قُرَيْشٍ وَهُوَ مِنْ الْبَطْنِ الَّذِي هِيَ مِنْهُ فَانْتَقَلْتُ إِلَيْهِ فَلَمَّا انْقَضَتْ عِدَّتِي سَمِعْتُ نِدَائَ الْمُنَادِي مُنَادِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنَادِي الصَّلَاةَ جَامِعَةً فَخَرَجْتُ إِلَی الْمَسْجِدِ فَصَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَکُنْتُ فِي صَفِّ النِّسَائِ الَّتِي تَلِي ظُهُورَ الْقَوْمِ فَلَمَّا قَضَی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاتَهُ جَلَسَ عَلَی الْمِنْبَرِ وَهُوَ يَضْحَکُ فَقَالَ لِيَلْزَمْ کُلُّ إِنْسَانٍ مُصَلَّاهُ ثُمَّ قَالَ أَتَدْرُونَ لِمَ جَمَعْتُکُمْ قَالُوا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ إِنِّي وَاللَّهِ مَا جَمَعْتُکُمْ لِرَغْبَةٍ وَلَا لِرَهْبَةٍ وَلَکِنْ جَمَعْتُکُمْ لِأَنَّ تَمِيمًا الدَّارِيَّ کَانَ رَجُلًا نَصْرَانِيًّا فَجَائَ فَبَايَعَ وَأَسْلَمَ وَحَدَّثَنِي حَدِيثًا وَافَقَ الَّذِي کُنْتُ أُحَدِّثُکُمْ عَنْ مَسِيحِ الدَّجَّالِ حَدَّثَنِي أَنَّهُ رَکِبَ فِي سَفِينَةٍ بَحْرِيَّةٍ مَعَ ثَلَاثِينَ رَجُلًا مِنْ لَخْمٍ وَجُذَامَ فَلَعِبَ بِهِمْ الْمَوْجُ شَهْرًا فِي الْبَحْرِ ثُمَّ أَرْفَئُوا إِلَی جَزِيرَةٍ فِي الْبَحْرِ حَتَّی مَغْرِبِ الشَّمْسِ فَجَلَسُوا فِي أَقْرُبْ السَّفِينَةِ فَدَخَلُوا الْجَزِيرَةَ فَلَقِيَتْهُمْ دَابَّةٌ أَهْلَبُ کَثِيرُ الشَّعَرِ لَا يَدْرُونَ مَا قُبُلُهُ مِنْ دُبُرِهِ مِنْ کَثْرَةِ الشَّعَرِ فَقَالُوا وَيْلَکِ مَا أَنْتِ فَقَالَتْ أَنَا الْجَسَّاسَةُ قَالُوا وَمَا الْجَسَّاسَةُ قَالَتْ أَيُّهَا الْقَوْمُ انْطَلِقُوا إِلَی هَذَا الرَّجُلِ فِي الدَّيْرِ فَإِنَّهُ إِلَی خَبَرِکُمْ بِالْأَشْوَاقِ قَالَ لَمَّا سَمَّتْ لَنَا رَجُلًا فَرِقْنَا مِنْهَا أَنْ تَکُونَ شَيْطَانَةً قَالَ فَانْطَلَقْنَا سِرَاعًا حَتَّی دَخَلْنَا الدَّيْرَ فَإِذَا فِيهِ أَعْظَمُ إِنْسَانٍ رَأَيْنَاهُ قَطُّ خَلْقًا وَأَشَدُّهُ وِثَاقًا مَجْمُوعَةٌ يَدَاهُ إِلَی عُنُقِهِ مَا بَيْنَ رُکْبَتَيْهِ إِلَی کَعْبَيْهِ بِالْحَدِيدِ قُلْنَا وَيْلَکَ مَا أَنْتَ قَالَ قَدْ قَدَرْتُمْ عَلَی خَبَرِي فَأَخْبِرُونِي مَا أَنْتُمْ قَالُوا نَحْنُ أُنَاسٌ مِنْ الْعَرَبِ رَکِبْنَا فِي سَفِينَةٍ بَحْرِيَّةٍ فَصَادَفْنَا الْبَحْرَ حِينَ اغْتَلَمَ فَلَعِبَ بِنَا الْمَوْجُ شَهْرًا ثُمَّ أَرْفَأْنَا إِلَی جَزِيرَتِکَ هَذِهِ فَجَلَسْنَا فِي أَقْرُبِهَا فَدَخَلْنَا الْجَزِيرَةَ فَلَقِيَتْنَا دَابَّةٌ أَهْلَبُ کَثِيرُ الشَّعَرِ لَا يُدْرَی مَا قُبُلُهُ مِنْ دُبُرِهِ مِنْ کَثْرَةِ الشَّعَرِ فَقُلْنَا وَيْلَکِ مَا أَنْتِ فَقَالَتْ أَنَا الْجَسَّاسَةُ قُلْنَا وَمَا الْجَسَّاسَةُ قَالَتْ اعْمِدُوا إِلَی هَذَا الرَّجُلِ فِي الدَّيْرِ فَإِنَّهُ إِلَی خَبَرِکُمْ بِالْأَشْوَاقِ فَأَقْبَلْنَا إِلَيْکَ سِرَاعًا وَفَزِعْنَا مِنْهَا وَلَمْ نَأْمَنْ أَنْ تَکُونَ شَيْطَانَةً فَقَالَ أَخْبِرُونِي عَنْ نَخْلِ بَيْسَانَ قُلْنَا عَنْ أَيِّ شَأْنِهَا تَسْتَخْبِرُ قَالَ أَسْأَلُکُمْ عَنْ نَخْلِهَا هَلْ يُثْمِرُ قُلْنَا لَهُ نَعَمْ قَالَ أَمَا إِنَّهُ يُوشِکُ أَنْ لَا تُثْمِرَ قَالَ أَخْبِرُونِي عَنْ بُحَيْرَةِ الطَّبَرِيَّةِ قُلْنَا عَنْ أَيِّ شَأْنِهَا تَسْتَخْبِرُ قَالَ هَلْ فِيهَا مَائٌ قَالُوا هِيَ کَثِيرَةُ الْمَائِ قَالَ أَمَا إِنَّ مَائَهَا يُوشِکُ أَنْ يَذْهَبَ قَالَ أَخْبِرُونِي عَنْ عَيْنِ زُغَرَ قَالُوا عَنْ أَيِّ شَأْنِهَا تَسْتَخْبِرُ قَالَ هَلْ فِي الْعَيْنِ مَائٌ وَهَلْ يَزْرَعُ أَهْلُهَا بِمَائِ الْعَيْنِ قُلْنَا لَهُ نَعَمْ هِيَ کَثِيرَةُ الْمَائِ وَأَهْلُهَا يَزْرَعُونَ مِنْ مَائِهَا قَالَ أَخْبِرُونِي عَنْ نَبِيِّ الْأُمِّيِّينَ مَا فَعَلَ قَالُوا قَدْ خَرَجَ مِنْ مَکَّةَ وَنَزَلَ يَثْرِبَ قَالَ أَقَاتَلَهُ الْعَرَبُ قُلْنَا نَعَمْ قَالَ کَيْفَ صَنَعَ بِهِمْ فَأَخْبَرْنَاهُ أَنَّهُ قَدْ ظَهَرَ عَلَی مَنْ يَلِيهِ مِنْ الْعَرَبِ وَأَطَاعُوهُ قَالَ لَهُمْ قَدْ کَانَ ذَلِکَ قُلْنَا نَعَمْ قَالَ أَمَا إِنَّ ذَاکَ خَيْرٌ لَهُمْ أَنْ يُطِيعُوهُ وَإِنِّي مُخْبِرُکُمْ عَنِّي إِنِّي أَنَا الْمَسِيحُ وَإِنِّي أُوشِکُ أَنْ يُؤْذَنَ لِي فِي الْخُرُوجِ فَأَخْرُجَ فَأَسِيرَ فِي الْأَرْضِ فَلَا أَدَعَ قَرْيَةً إِلَّا هَبَطْتُهَا فِي أَرْبَعِينَ لَيْلَةً غَيْرَ مَکَّةَ وَطَيْبَةَ فَهُمَا مُحَرَّمَتَانِ عَلَيَّ کِلْتَاهُمَا کُلَّمَا أَرَدْتُ أَنْ أَدْخُلَ وَاحِدَةً أَوْ وَاحِدًا مِنْهُمَا اسْتَقْبَلَنِي مَلَکٌ بِيَدِهِ السَّيْفُ صَلْتًا يَصُدُّنِي عَنْهَا وَإِنَّ عَلَی کُلِّ نَقْبٍ مِنْهَا مَلَائِکَةً يَحْرُسُونَهَا قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَطَعَنَ بِمِخْصَرَتِهِ فِي الْمِنْبَرِ هَذِهِ طَيْبَةُ هَذِهِ طَيْبَةُ هَذِهِ طَيْبَةُ يَعْنِي الْمَدِينَةَ أَلَا هَلْ کُنْتُ حَدَّثْتُکُمْ ذَلِکَ فَقَالَ النَّاسُ نَعَمْ فَإِنَّهُ أَعْجَبَنِي حَدِيثُ تَمِيمٍ أَنَّهُ وَافَقَ الَّذِي کُنْتُ أُحَدِّثُکُمْ عَنْهُ وَعَنْ الْمَدِينَةِ وَمَکَّةَ أَلَا إِنَّهُ فِي بَحْرِ الشَّأْمِ أَوْ بَحْرِ الْيَمَنِ لَا بَلْ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَا هُوَ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَا هُوَ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَا هُوَ وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ إِلَی الْمَشْرِقِ قَالَتْ فَحَفِظْتُ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
عبدالوارث ابن عبدالصمد بن عبدالوارث حجاج بن شاعر، عبدالوارث بن عبدالصمد ابی جدی حسین بن ذکوان بن بریدہ ، حضرت عامر بن شراحیل شعبی سے روایت ہے کہ اس فاطمہ بنت قیس، ضحاک بن قیس کی بہن سے پوچھا کہ مجھے ایسی حدیث روایت کی جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنی ہو اور اس میں کسی اور کا واسطہ بیان نہ کرنا حضرت فاطمہ نے کہا اگر تم چاہتے ہو تو میں ایسی حدیث روایت کرتی ہوں انہوں نے حضرت فاطمہ سے کہا ہاں ایسی حدیث مجھے بیان کرو تو انہوں نے کہا میں نے ابن مغیرہ سے نکاح کیا اور وہ ان دنوں قریش کے عمدہ نوجوان میں سے تھے اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد میں شہید ہو گئے پس جب میں بیوہ ہوگئی تو حضرت عبدالرحمن بن عوف نے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک جماعت میں مجھے پیغام نکاح دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے آزاد کردہ غلام اسامہ بن زید کے لئے پیغام نکاح دیا اور میں یہ حدیث سن چکی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو مجھ سے محبت کرتا ہے اسے چاہئے کہ وہ اسامہ سے محبت کرے پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھ سے (اس معاملہ میں) گفتگو کی تو میں نے عرض کیا میرا معاملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس سے چاہیں میرا نکاح کر دیں آپ نے فرمایا ام شریک کے ہاں منتقل ہو جا اور ام شریک انصار میں سے غنی عورت تھیں اور اللہ کے راستہ میں بہت خرچ کرنے والی تھیں اس کے ہاں مہمان آتے رہتے تھے تو میں نے عرض کیا میں عنقریب ایسا کروں گی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو ایسا نہ کر کیونکہ ام شریک ایسی عورت ہیں جن کے پاس مہمان کثرت سے آتے رہتے ہیں میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ تجھ سے تیرا دو ٹپہ گر جائے یا تیری پنڈلی سے کپڑا ہٹ جائے اور لوگ تیرا وہ بعض حصہ دیکھ لیں جسے تو ناپسند کرتی ہو بلکہ تو اپنے چچا زاد عبداللہ بن عمرو بن ام مکتوم کے ہاں منتقل ہو جا اور وہ قریش کے خاندان بن فہر سے تعلق رکھتے ہیں (اور وہ اسی خاندان سے تھے جس سے فاطمہ بنت قیس تھیں) میں ان کے پاس منتقل ہوگئی جب میری عدت پوری ہوگئی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے نداء دینے والے کی آواز سنی جو کہہ رہا تھا نماز کی جاعت ہونے والی ہے پس میں مسجد کی طرف نکلی اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی اس حال میں کہ میں عورتوں کی اس صف میں تھی جو مردوں کی پشتوں سے ملی ہوئی تھی جب رسول اللہ نے اپنی نماز پوری کرلی تو مسکراتے ہوئے منبر پر تشریف فرما ہوئے تو فرمایا ہر آدمی اپنی نماز کی جگہ پر ہی بیٹھا رہے پھر فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ میں نے تمہیں کیوں جمع کیا ہے صحابہ نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی قسم میں نے تمہیں کسی بات کی ترغیب یا اللہ سے ڈرانے کے لئے جمع نہیں کیا میں نے تمہیں صرف اس لئے جمع کیا ہے کہ تمیم داری نصرانی آدمی تھے پس وہ آئے اور اسلام پر بیعت کی اور مسلمان ہو گئے اور مجھے ایک بات بتائی جو اس خبر کے موافق ہے جو میں تمہیں دجال کے بارے میں پہلے ہی بتا چکا ہوں چنانچہ انہوں نے مجھے خبر دی کہ وہ بنو لخم اور بنو جذام کے تیس آدمیوں کے ساتھ ایک بحری کشتی میں سوار ہوئے پس انہیں ایک ماہ تک بحری موجیں دھکیلتی رہیں پھر وہ سمندر میں ایک جزیرہ کی طرف پہچنے یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا تو وہ چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر جزیرہ کے اندر داخل ہوئے تو انہیں وہاں ایک جانور ملا جو موٹے اور گھنے بالوں والا تھا بالوں کی کثرت کی وجہ سے اس کا اگلا اور پچھلا حصہ وہ نہ پہچان سکے تو انہوں نے کہا تیرے لئے ہلاکت ہو تو کون ہے اس نے کہا اے قوم اس آدمی کی طرف گرجے میں چلو کیونکہ وہ تمہاری خبر کے بارے میں بہت شوق رکھتا ہے پس جب اس نے ہمارا نام لیا تو ہم گھبرا گئے کہ وہ کہیں جن ہی نہ ہو پس ہم جلدی جلدی چلے یہاں تک کہ گرجے میں داخل ہوگئے وہاں ایک بہت بڑا انسان تھا کہ اس سے پہلے ہم نے اتنا بڑا آدمی اتنی سختی کے ساتھ بندھا ہوا کہیں نہ دیکھا تھا اس کے دونوں ہاتھوں کو گردن کے ساتھ باندھا ہوا تھا اور گھٹنوں سے ٹخنوں تک لوہے کی زنجیروں سے جکڑا ہوا تھا ہم نے کہا تیرے لئے ہلاکت ہو تو کون ہے اس نے کہا تم میری خبر معلوم کرنے پر قادر ہو ہی گئے ہو تو تم ہی بتاؤ کہ تم کون ہو؟ انہوں نے کہا ہم عرب کے لوگ ہیں ہم دریائی جہاز میں سوار ہوئے پس جب ہم سوار ہوئے تو سمندر کو جوش میں پایا پس موجیں ایک مہینہ تک ہم سے کھیلتی رہیں پھر ہمیں تمہارے اس جزیرہ تک پہنچا دیا پس ہم چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں سوار ہوئے اور جزیرہ کے اندر داخل ہو گئے تو ہمیں بہت موٹے اور گھنے بالوں والا جانور ملا جس کے بالوں کی کثرت کی وجہ سے اس کا اگلا اور پچھلا حصہ پہچانا نہ جاتا تھا ہم نے کہا تیرے لئے ہلاکت ہو تو کون ہے اس نے کہا میں جساسہ ہوں ہم نے کہا جساسہ کیا ہوتا ہے اس نے کہا گرجے میں اس آدمی کا قصد کرو کیونکہ وہ تمہاری خبر کا بہت شوق رکھتا ہے پس ہم تیری طرف جلدی سے چلے اور ہم گھبرائے اور اس (جانور) سے پر امن نہ تھے کہ وہ جن ہو اس نے کہا مجھے بیسان کے باغ کے بارے میں خبر دو ہم نے کہا اس کی کس چیز کے بارے میں تم خبر معلوم کرنا چاہتے ہو اس نے کہا میں اس کی کھجوروں کے پھل کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں ہم نے اس سے کہا ہاں پھل آتا ہے اس نے کہا عنقریب یہ زمانہ آنے والا ہے کہ وہ درخت پھل نہ دیں گے اس نے کہا مجھے بحیرہ طبریہ کے بارے میں خبر دو ہم نے کہا اس کی کس چیز کے بارے میں تم خبر معلوم کرنا چاہتے ہو اس نے کہا کیا اس میں پانی ہے ہم نے کہا اس میں پانی کثرت کے ساتھ موجود ہے اس نے کہا عنقریب اس کا سارا پانی ختم ہو جائے گا اس نے کہا مجھے زغر کے چشمہ کے بارے میں بتاؤ ہم نے کہا اس کی کس چیز کے بارے میں تم معلوم کرنا چاہتے ہو اس نے کہا کیا اس چشمہ میں وہاں کے لوگ اس کے پانی سے کھیتی باڑی کرتے ہیں ہم نے کہا ہاں یہ کثیر پانی والا ہے اور وہاں کے لوگ اس کے پانی سے کھیتی باڑی کرتے ہیں پھر اس نے کہا مجھے امیوں کے نبی کے بارے میں خبر دو کہ اس نے کیا کیا ہم نے کہا وہ مکہ سے نکلے اور یثرب یعنی مدینہ میں اترے ہیں اس نے کہا کیا راستے میں عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جنگ کی ہے ہم نے کہا ہاں اس نے کہا اس نے اہل عرب کے ساتھ کیا سلوک کیا ہم نے اسے خبر دی کہ وہ اپنے ملحقہ حدود کے عرب پر غالب آگئے ہیں اور انہوں نے اس کی اطاعت کی ہے اس نے کہا کیا ایسا ہو چکا ہے ہم نے کہا ہاں اس نے کہا ان کے حق میں یہ بات بہتر ہے کہ وہ اس کے تابعدار ہو جائیں اور میں تمہیں اپنے بارے میں خبر دیتا ہوں کہ میں مسیح دجال ہوں عنقریب مجھے نکلنے کی اجازت دے دی جائے گی پس میں نکلوں گا اور میں زمین میں چکر لگاؤں گا اور چالیس راتوں میں ہر ہر بستی پر اتروں گا مکہ اور مدینہ طبیہ کے علاوہ کیونکہ ان دونوں پر داخل ہونا میرے لئے حرام کردیا جائے گا اور اس میں داخل ہونے سے مجھے روکا جائے گا اور اس کی ہر گھاٹی پر فرشتے پہرہ دار ہوں گے حضرت فاطمہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی کو منبر پر چبھویا اور فرمایا یہ طبیہ ہے یہ طبیہ ہے یہ طیبہ ہے یعنی مدینہ ہے کیا میں نے تمہیں یہ باتیں پہلے ہی بیان نہ کر دیں تھیں لوگوں نے عرض کیا جی ہاں، فرمایا بے شک مجھے تمیم کی اس خبر سے خوشی ہوئی ہے کہ وہ اس حدیث کے موافق ہے جو میں نے تمہیں دجال اور مدینہ اور مکہ کے بارے میں بیان کی تھی آگاہ رہو دجال شام یا یمن کے سمندر میں ہے، نہیں بلکہ مشرق کی طرف ہے وہ مشرق کی طرف ہے وہ مشرق کی طرف ہے اور آپ نے اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کیا پس میں نے یہ حدیث رسول اللہ سے یاد کر لی۔
Amir b. Sharahil Sha'bi Sha'b Hamdan reported that he asked Fatima, daughter of Qais and sister of ad-Dahhak b. Qais and she was the first amongst the emigrant women: Narrate to me a hadith which you had heard directly from Allah's Messenger (may peace be upon him) and there is no extra link in between them. She said: Very well, if you like, I am prepared to do that, and he said to her: Well, do it and narrate that to me. She said: I married the son of Mughira and he was a chosen young man of Quraish at that time, but he fell as a martyr in the first Jihad (fighting) on the side of Allah's Messenger (may peace be upon him). When I became a widow, 'Abd al-Rahman b. Auf, one amongst the group of the Companions of Allah's Messenger (may peace be upon him), sent me the proposal of marriage. Allah's Messenger (may peace be upon him) also sent me such a message for his freed slave Usama b. Zaid. And it had been conveyed to me that Allah's Messenger (may peace be upon him) had said (about Usama): He who loves me should also love Usama. When Allah's Messenger (may peace be upon him) talked to me (about this matter), I said: My affairs are in your hand. You may marry me to anyone whom you like. He said: You better shift now to the house of Umm Sharik, and Umm Sharik was a rich lady from amongst the Anqir. She spent generously for the cause of Allah and entertained guests very hospitably. I said: Well, I will do as you like. He said: Do not do that for Umm Sharik is a woman who is very frequently vizited by guests and I do not like that your head may be uncovered or the cloth may be removed from your shank and the strangers may catch sight of them which you abhor. You better shift to the house of your cousin 'Abdullah b. 'Amr b. Umm Maktum and he is a person of the Bani Fihr branch of the Quraish, and he belonged to that tribe (to which Fatima) belonged. So I shifted to that house, and when my period of waiting was over, I heard the voice of an announcer making an announcement that the prayer would be observed in the mosque (where) congregational prayer (is observed).
So I set out towards that mosque and observed prayer along with Allah's Messenger (may peace be upon him) and I was in the row of the women which was near the row of men. When Allah's Messenger (may peace be upon him) had finished his prayer, he sat on the pulpit smiling and said: Every worshipper should keep sitting at his place. He then said: Do you know why I had asked you to assemble? They said: Allah and His Messenger know best. He said: By Allah. I have not made you assemble for exhortation or for a warning, but I have detained you here, for Tamim Dari, a Christian, who came and accepted Islam, told me something, which agrees with what I was telling, you about the Dajjal. He narrated to me that he had sailed in a ship along with thirty men of Bani Lakhm and Bani Judham and had been tossed by waves in the ocean for a month. Then these (waves) took them (near) the land within the ocean (island) at the time of sunset. They sat in a small side-boat and entered that Island. There was a beast with long thick hair (and because of these) they could not distinguish his face from his back. They said: Woe to you, who can you be? Thereupon it said: I am al-Jassasa. They said: What is al-Jassasa? And it said: O people, go to this person in the monastery as he is very much eager to know about you. He (the narrator) said: When it named a person for us we were afraid of it lest it should be a Devil. Then we hurriedly went on till we came to that monastery and found a well-built person there with his hands tied to his neck and having iron shackles between his two legs up to the ankles. We said: Woe be upon thee, who are you? And he said: You would soon come to know about me, but tell me who are you. We said: We are people from Arabia and we embarked upon a boat but the sea-waves had been driving us for one month and they brought as near this island. We got into the side-boats and entered this island and here a beast met us with profusely thick hair and because of the thickness of his hair his face could not be distinguished from his back. We said: Woe be to thee, who are you? It said: I am al- Jassasa. We said: What is al-Jassasa? And it said: You go to this very person in the monastery for he is eagerly waiting for you to know about you. So we came to you in hot haste fearing that that might be the Devil. He (that chained person) said: Tell me about the date-palm trees of Baisan. We said: About what aspect of theirs do you seek information? He said: I ask you whether these trees bear fruit or not.
We said: Yes. Thereupon he said: I think these would not bear fruits. He said: Inform me about the lake of Tabariyya? We said: Which aspect of it do you want to know? He said: Is there water in it? They said: There is abundance of water in it. Thereupon he said: I think it would soon become dry. He again said: Inform me about the spring of Zughar. They said: Which aspect of it you want to know? He (the chained person) said: Is there water in it and does it irrigate (the land)? We said to him: Yes, there is abundance of water in it and the inhabitants (of Medina) irrigate (land) with the help of it, He said: Inform me about the unlettered Prophet; what has he done? We said: He has come out from Mecca and has settled In Yathrib (Medina). He said: Do the Arabs fight against him? We said: Yes. He said: How did he deal with them? We informed him that he had overcome those in his neighbourhood and they had submitted themselves before him. Thereupon he said to us: Had it actually happened? We said: Yes. Thereupon he said: If it is so that is better for them that they should show obedience to him. I am going to tell you about myself and I am Dajjal and would be soon permitted to get out and so I shall get out and travel in the land, and will not spare any town where I would not stay for forty nights except Mecca and Medina as these two (places) are prohibited (areas) for me and I would not make an attempt to enter any one of these two. An angel with a sword in his hand would confront me and would bar my way and there would be angels to guard every passage leading to it; then Allah's Messenger (may peace be upon him) striking the pulpit with the help of the end of his staff said: This implies Taiba meaning Medina. Have I not, told you an account (of the Dajjal) like this? 'The people said: Yes, and this account narrated by Tamim Dari was liked by me for it corroborates the account which I gave to you in regard to him (Dajjal) at Medina and Mecca. Behold he (Dajjal) is in the Syrian sea (Mediterranian) or the Yemen sea (Arabian sea). Nay, on the contrary, he As In the east, he is in the east, he is in the east, and he pointed with his hand towards the east. I (Fatima bint Qais) said: I preserved it in my mind (this narration from Allah's Messenger (may peace be upon him).