صحیح مسلم ۔ جلد سوم ۔ فتنوں کا بیان ۔ حدیث 2849

ابن صیاد کے تذکرے کے بیان میں

راوی: محمد بن مثنی , سالم بن نوح جریر , ابی نضرہ ابوسعید خدری

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا سَالِمُ بْنُ نُوحٍ أَخْبَرَنِي الْجُرَيْرِيُّ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ خَرَجْنَا حُجَّاجًا أَوْ عُمَّارًا وَمَعَنَا ابْنُ صَائِدٍ قَالَ فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا فَتَفَرَّقَ النَّاسُ وَبَقِيتُ أَنَا وَهُوَ فَاسْتَوْحَشْتُ مِنْهُ وَحْشَةً شَدِيدَةً مِمَّا يُقَالُ عَلَيْهِ قَالَ وَجَائَ بِمَتَاعِهِ فَوَضَعَهُ مَعَ مَتَاعِي فَقُلْتُ إِنَّ الْحَرَّ شَدِيدٌ فَلَوْ وَضَعْتَهُ تَحْتَ تِلْکَ الشَّجَرَةِ قَالَ فَفَعَلَ قَالَ فَرُفِعَتْ لَنَا غَنَمٌ فَانْطَلَقَ فَجَائَ بِعُسٍّ فَقَالَ اشْرَبْ أَبَا سَعِيدٍ فَقُلْتُ إِنَّ الْحَرَّ شَدِيدٌ وَاللَّبَنُ حَارٌّ مَا بِي إِلَّا أَنِّي أَکْرَهُ أَنْ أَشْرَبَ عَنْ يَدِهِ أَوْ قَالَ آخُذَ عَنْ يَدِهِ فَقَالَ أَبَا سَعِيدٍ لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آخُذَ حَبْلًا فَأُعَلِّقَهُ بِشَجَرَةٍ ثُمَّ أَخْتَنِقَ مِمَّا يَقُولُ لِي النَّاسُ يَا أَبَا سَعِيدٍ مَنْ خَفِيَ عَلَيْهِ حَدِيثُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا خَفِيَ عَلَيْکُمْ مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ أَلَسْتَ مِنْ أَعْلَمِ النَّاسِ بِحَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَيْسَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ کَافِرٌ وَأَنَا مُسْلِمٌ أَوَلَيْسَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ عَقِيمٌ لَا يُولَدُ لَهُ وَقَدْ تَرَکْتُ وَلَدِي بِالْمَدِينَةِ أَوَلَيْسَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَدْخُلُ الْمَدِينَةَ وَلَا مَکَّةَ وَقَدْ أَقْبَلْتُ مِنْ الْمَدِينَةِ وَأَنَا أُرِيدُ مَکَّةَ قَالَ أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ حَتَّی کِدْتُ أَنْ أَعْذِرَهُ ثُمَّ قَالَ أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْرِفُهُ وَأَعْرِفُ مَوْلِدَهُ وَأَيْنَ هُوَ الْآنَ قَالَ قُلْتُ لَهُ تَبًّا لَکَ سَائِرَ الْيَوْمِ

محمد بن مثنی، سالم بن نوح جریر، ابی نضرہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم حج یا عمرہ کرنے کی غرض سے چلے اور ابن صائد ہمارے ساتھ تھا ہم ایک جگہ اترے تو لوگ منتشر ہو گئے میں اور وہ باقی رہ گئے اور مجھے اس سے سخت وحشت و خوف آیا جو اس کے بارے میں کہا جاتا تھا اور اس نے اپنا سامان لا کر میرے سامان کے ساتھ رکھ دیا تو میں نے کہا گرمی سخت ہے اگر تو اپنا سامان درخت کے نیچے رکھ دے( تو بہتر ہے) پس اس نے ایسا ہی کیا پھر ہمیں کچھ بکریاں نظر پڑیں وہ گیا اور ایک (دودھ کا) بھرا ہوا پیالہ لے آیا اور کہنے لگا اے ابوسعید پیو میں نے کہا گرمی بہت سخت ہے اور دودھ بھی گرم ہے اور دودھ کے ناپسند کرنے کے سوائے اس کے ہاتھ سے بچنے کی اور کوئی بات نہ تھی یا کہا اس کے ہاتھ سے لینا ہی ناپسند تھا تو اس نے کہا اے ابوسعید میں نے ارادہ کیا ہے کہ ایک رسی لے کر درخت کے ساتھ لٹکاؤں پھر اپنا گلا گھونٹ لوں اس وجہ سے جو میرے بارے میں لوگ باتیں کرتے ہیں اے ابوسعید جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مخفی ہے (ان کی تو الگ بات ہے) اے انصار کی جماعت !تجھ پر تو پوشیدہ نہیں ہے کیا تو لوگوں میں سب سے زیادہ رسول اللہ کی حدیث کو جاننے والا نہیں حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دجال کافر ہوگا اور میں مسلمان ہوں کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا وہ بانجھ ہوگا کہ اس کی کوئی اولاد نہ ہوگی حالانکہ میں اپنی اولاد مدینہ میں چھوڑ کر آیا ہوں کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا تھا کہ وہ مدینہ اور مکہ میں داخل نہ ہوگا حالانکہ میں مدینہ سے آرہا ہوں اور مکہ کا ارادہ ہے حضرت ابوسعید خدری نے کہا قریب تھا کہ میں اس کے عذر قبول کر لیتا پھر اس نے کہا اللہ کی قسم میں اسے پہچانتا ہوں اور اس کی جائے پیدائش سے بھی واقف ہوں اور یہ بھی معلوم ہے کہ وہ اس وقت کہاں ہے میں نے اس سے کہا تیرے لئے سارے دن کی ہلاکت و بربادی ہو۔

Abu Sa'id Khudri reported: We came back after having performed Pilgrimage or 'Umra and lbn Sa'id was along with us. And we encamped at a place and the people dispersed and I and he were left behind. I felt terribly frightened from him as it was said about him that he was the Dajjal. He brought his goods and placed them by my luggage and I said: It is intense heat. Would you not place that under that tree? And he did that. Then there appeared before us a flock of sheep. He went and brought a cup of milk and said: Abu Sa'id, drink that. I said it is intense heat and the milk is also hot (whereas the fact was) that I did not like to drink from his hands (or said: to take it from his hand) and he said: Abu Sa'id, I think that I should take a rope and suspend it by the tree and then commit suicide because of the talks of the people, and he further said. Abu Sa'id he who is ignorant of the saying of Allah's Messenger (may peace be upon him) (he is to be pardoned), but O people of Ansar, is this hadith of Allah's Messenger (may peace be upon him) concealed from you whereas you have the best knowledge of this hadith of Allah's Messenger (may peace be upon him) amongst people? Did Allah's Messenger (may peace be upon him) not say that he (Dajjal) would be a non believer whereas I am a believer? Did Allah's Messenger (may peace be upon him) not say he would be barren and no child would be born to him, whereas I have left my children in Medina? Did Allah's Messenger (may peace upon him) not say: He would not get into Medina and Mecca whereas I have been coming from Medina and now I intend to go to Mecca? Abu Sa'id said: I was about to accept the excuse put forward by him. That he said: I know the place where he would be born and where he is now. So I said to him: May your whole days be spent in grief for you.

یہ حدیث شیئر کریں