توبہ کرنے کی ترغیب اور اس سے خوش لونے کے بیان میں
راوی: عبیداللہ بن معاذ عنبری ابویونس سماک ، نعمان بن بشیر
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا أَبُو يُونُسَ عَنْ سِمَاکٍ قَالَ خَطَبَ النُّعْمَانُ بْنُ بَشِيرٍ فَقَالَ لَلَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ مِنْ رَجُلٍ حَمَلَ زَادَهُ وَمَزَادَهُ عَلَی بَعِيرٍ ثُمَّ سَارَ حَتَّی کَانَ بِفَلَاةٍ مِنْ الْأَرْضِ فَأَدْرَکَتْهُ الْقَائِلَةُ فَنَزَلَ فَقَالَ تَحْتَ شَجَرَةٍ فَغَلَبَتْهُ عَيْنُهُ وَانْسَلَّ بَعِيرُهُ فَاسْتَيْقَظَ فَسَعَی شَرَفًا فَلَمْ يَرَ شَيْئًا ثُمَّ سَعَی شَرَفًا ثَانِيًا فَلَمْ يَرَ شَيْئًا ثُمَّ سَعَی شَرَفًا ثَالِثًا فَلَمْ يَرَ شَيْئًا فَأَقْبَلَ حَتَّی أَتَی مَکَانَهُ الَّذِي قَالَ فِيهِ فَبَيْنَمَا هُوَ قَاعِدٌ إِذْ جَائَهُ بَعِيرُهُ يَمْشِي حَتَّی وَضَعَ خِطَامَهُ فِي يَدِهِ فَلَلَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ الْعَبْدِ مِنْ هَذَا حِينَ وَجَدَ بَعِيرَهُ عَلَی حَالِهِ قَالَ سِمَاکٌ فَزَعَمَ الشَّعْبِيُّ أَنَّ النُّعْمَانَ رَفَعَ هَذَا الْحَدِيثَ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَمَّا أَنَا فَلَمْ أَسْمَعْهُ
عبیداللہ بن معاذ عنبری ابویونس حضرت سماک سے روایت ہے کہ حضرت نعمان بن بشیر نے خطبہ دیا تو کہا اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کی توبہ پر اس آدمی سے زیادہ خوش ہوتا ہے جس نے اپنا زاد راہ اور مشکیزہ اونٹ پر لادا ہو پھر چل دیا یہاں تک کہ کسی جنگل کی زمین میں آیا اور اسے دوپہر کی نیند گھیر لے اور وہ اتر کر ایک درخت کے نیچے سو جائے اس کی آنکھ مغلوب ہو جائے اور اس کا اونٹ کسی طرف چلا جائے وہ بیدار ہو کر ٹیلہ پر چڑھ کر دیکھے لیکن کچھ بھی نظر نہ آئے پھر دوسری مرتبہ ٹیلہ پر چڑھے لیکن کچھ بھی نہ دیکھے پھر تیسری مرتبہ ٹیلہ پر چڑھے لیکن کچھ بھی نظر نہ آئے پھر وہ اسی جگہ واپس آجائے جہاں وہ سویا تھا پھر جس جگہ وہ بیٹھا ہوا ہو اچانک وہیں پر اونٹ چلتے چلتے پہنچ جائے یہاں تک کہ اپنی مہار لا کر اس آدمی کے ہاتھ میں رکھ دے تو اللہ تعالیٰ کو بندے کی توبہ پر اس آدمی کی اس وقت کی خوشی سے زیادہ خوشی ہوتی ہے جب وہ اپنے بندے کو نا امیدی کے عالم میں پا لے سماک نے کہا حضرت شعبی کا گمان ہے کہ حضرت نعمان نے یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً روایت کی تھی لیکن میں نے ان سے مر فوعا نہیں سنا۔
Nu'man b. Bashir reported: Allah is more pleased with the repentance of a believing servant than of a person who set out on a journey with a provision of food and drink on the back of his camel. He went on until he came to a waterless desert and he felt like sleeping. So he got down under the shade of a tree and was overcome by sleep and his camel ran away. As he got up he tried to see (the camel) standing upon a mound but did not find it. He then got upon the other mound, but could not see anything. He then climbed upon the third mound but did not see anything until he came back to the place where he had been previously. And as he was sitting (in utter disappointment) there came to him the camel, till that (camel) placed its nosestring in his hand. Allah is more pleased with the repentance of His servant than the person who found (his lost camel) in this very state. Simak reported that Sha'bi was of the opinion that Nu'min traced it to Allah's Apostle (may peace be upon him). Simak, however, did not hear that himself.