قبیلہ ثقیف کے کذاب اور اس کے ظالم کے ذکر کے بیان میں
راوی: عقبہ بن مکرم , یعقوب ابن اسحق , حضرمی , اسود بن شیبان , عقبہ ابونوفل
حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُکْرَمٍ الْعَمِّيُّ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ يَعْنِي ابْنَ إِسْحَقَ الْحَضْرَمِيَّ أَخْبَرَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ شَيْبَانَ عَنْ أَبِي نَوْفَلٍ رَأَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ عَلَی عَقَبَةِ الْمَدِينَةِ قَالَ فَجَعَلَتْ قُرَيْشٌ تَمُرُّ عَلَيْهِ وَالنَّاسُ حَتَّی مَرَّ عَلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ فَوَقَفَ عَلَيْهِ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْکَ أَبَا خُبَيْبٍ السَّلَامُ عَلَيْکَ أَبَا خُبَيْبٍ السَّلَامُ عَلَيْکَ أَبَا خُبَيْبٍ أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ کُنْتُ أَنْهَاکَ عَنْ هَذَا أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ کُنْتُ أَنْهَاکَ عَنْ هَذَا أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ کُنْتُ أَنْهَاکَ عَنْ هَذَا أَمَا وَاللَّهِ إِنْ کُنْتَ مَا عَلِمْتُ صَوَّامًا قَوَّامًا وَصُولًا لِلرَّحِمِ أَمَا وَاللَّهِ لَأُمَّةٌ أَنْتَ أَشَرُّهَا لَأُمَّةٌ خَيْرٌ ثُمَّ نَفَذَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ فَبَلَغَ الْحَجَّاجَ مَوْقِفُ عَبْدِ اللَّهِ وَقَوْلُهُ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ فَأُنْزِلَ عَنْ جِذْعِهِ فَأُلْقِيَ فِي قُبُورِ الْيَهُودِ ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَی أُمِّهِ أَسْمَائَ بِنْتِ أَبِي بَکْرٍ فَأَبَتْ أَنْ تَأْتِيَهُ فَأَعَادَ عَلَيْهَا الرَّسُولَ لَتَأْتِيَنِّي أَوْ لَأَبْعَثَنَّ إِلَيْکِ مَنْ يَسْحَبُکِ بِقُرُونِکِ قَالَ فَأَبَتْ وَقَالَتْ وَاللَّهِ لَا آتِيکَ حَتَّی تَبْعَثَ إِلَيَّ مَنْ يَسْحَبُنِي بِقُرُونِي قَالَ فَقَالَ أَرُونِي سِبْتَيَّ فَأَخَذَ نَعْلَيْهِ ثُمَّ انْطَلَقَ يَتَوَذَّفُ حَتَّی دَخَلَ عَلَيْهَا فَقَالَ کَيْفَ رَأَيْتِنِي صَنَعْتُ بِعَدُوِّ اللَّهِ قَالَتْ رَأَيْتُکَ أَفْسَدْتَ عَلَيْهِ دُنْيَاهُ وَأَفْسَدَ عَلَيْکَ آخِرَتَکَ بَلَغَنِي أَنَّکَ تَقُولُ لَهُ يَا ابْنَ ذَاتِ النِّطَاقَيْنِ أَنَا وَاللَّهِ ذَاتُ النِّطَاقَيْنِ أَمَّا أَحَدُهُمَا فَکُنْتُ أَرْفَعُ بِهِ طَعَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَطَعَامَ أَبِي بَکْرٍ مِنْ الدَّوَابِّ وَأَمَّا الْآخَرُ فَنِطَاقُ الْمَرْأَةِ الَّتِي لَا تَسْتَغْنِي عَنْهُ أَمَا إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا أَنَّ فِي ثَقِيفٍ کَذَّابًا وَمُبِيرًا فَأَمَّا الْکَذَّابُ فَرَأَيْنَاهُ وَأَمَّا الْمُبِيرُ فَلَا إِخَالُکَ إِلَّا إِيَّاهُ قَالَ فَقَامَ عَنْهَا وَلَمْ يُرَاجِعْهَا
عقبہ بن مکرم، یعقوب ابن اسحاق ، حضرمی، اسود بن شیبان، عقبہ حضرت ابونوفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبداللہ بن زیبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مدینہ کی ایک گھاٹی پر (سولی لٹکتے ہوئے) دیکھا۔ حضرت ابو نوفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ قریشی اور دوسرے لوگ بھی اس طرف سے گزرتے تھے یہاں تک کہ جب حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس طرف سے گزرے تو وہاں پر کھڑے ہو کر فرمایا اے ابوخبیب تجھ پر سلامتی ہو۔ اے ابو خبیب تجھ پر سلامتی ہو۔ اے ابو خبیب تجھ پر سلامتی ہو۔ اللہ کی قسم میں آپ کو اس سے (یعنی خدمت سے) پہلے ہی روکتا تھا۔ اللہ کی قسم میں آپ کو اس سے پہلے ہی روکتا تھا۔ اللہ کی قسم میں آپ کی طرح روزہ دار شب زندہ دار اور صلہ رحم کسی کو نہیں جانتا۔ اللہ کی قسم! (دشمن کی نظر میں) آپ کا جو گروہ برا تھا وہ بہت اچھا گروہ تھا۔ پھر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما چلے آئے۔ حجاج کو حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے یہاں کھڑے ہونے اور کلام کرنے کی اطلاع پہنچی تو حجاج نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نعش اس گھاٹی سے اتروا کر یہود کے قبرستان میں پھنکوا دی۔ پھر اس نے حضرت عبداللہ کی والدہ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی طرف آدمی بھیج کر ان کو بلوایا حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آنے سے انکار کر دیا۔ حجاج نے دوبارہ بلوانے بھیجا اور کہنے لگے کہ اگر کوئی ہے تو (ٹھیک ہے) ورنہ میں تیری طرف ایک ایسے آدمی کو بھیجوں گا کہ جو تیرے بالوں کو کھنیچتا ہوا تجھے میرے پاس لے آئے گا۔ حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پھر انکار کر دیا اور فرمانے لگیں اللہ کی قسم میں تیرے پاس نہیں آؤں گی چاہے تو میری طرف ایسے آدمی کو بھیجے کہ وہ میرے بالوں کو کھینچتا ہوا لائے۔ راوی کہتے ہیں کہ بالآخر حجاج کہنے لگا کہ میری جوتیاں لاؤ وہ جوتیاں پہن کر اکڑتا ہوا حضرت اسماء کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ کیا تو نے دیکھا ہے کہ میں نے اللہ کے دشمن کے ساتھ کیا کیا ہے؟ حضرت اسماء نے فرمایا میں نے دیکھا ہے کہ تو نے اس کی دنیا خراب کر دی ہے اور اس نے تیری آخرت خراب کر دی ہے۔ (حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں) مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ تو نے عبداللہ کو (طنزیہ انداز میں) دو کمر بندوں والی کا بیٹا کہا ہے؟ اللہ کی قسم میں دو کمر بندوں والی ہوں۔ ایک کمر بند سے تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کھانا (ہجرت کے موقع پر) باندھا تھا اور دوسرا کمر بند وہی تھا کہ جس کی عورت کو ضرورت ہوتی ہے اور (اے حجاج) سن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے ایک حدیث بیان فرمائی تھی (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) قبیلہ ثقیف میں ایک کذاب اور ایک ظالم ہوگا کہ کذاب کو تو ہم نے دیکھ لیا (یعنی مختار بن ابی عبید ثقفی) اور ظالم میں تیرے علاوہ کسی کو نہیں سمجھتی۔ راوی کہتے ہیں کہ حجاج (یہ سن کر) اٹھ کھڑا ہوا اور حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو کوئی جواب نہیں دیا۔
Abu Naufal reported: I saw (the dead body) of Abdullah b. Zubair hanging on the road of Medina (leading to Mecca). The Quraish passed by it and other people too, that Abdullah b. Umar happened to pass by it. He stood up there and said: May there be peace upon you, Abu Khubaib (the Kunya of Hadrat 'Abdullah b. Zubair), may there be peace upon you Abu Khubaib, may there be peace upon you, Abu Khubaib! By Allah, I used to forbid you from this; by Allah, I used to forbid you from this, by Allah I used to forbid you from this. By Allah, so far as I know, you had been very much devoted to fasting and prayer and you had been paying very much care to cementing the ties of blood. By Allah, the group to which you belong (are labelled) as (a) wicked (person) is indeed a fine group. Then 'Abdullah b. 'Umar went away. The stand 'Abdullah (b. 'Umar) took in regard to the inhuman treatment (meted out to 'Abdullah b. Zubair) and his words (in that connection) were conveyed to Hajjaj (b. Yusuf) and (as a consequence of that) he (the body of Abdullah b. Zubair) was brought down from the stump (the scaffold) by which it was hanging and thrown into the graves of the Jews. He (Hajjaj) sent (his messenger) to Asma' (bint Abu Bakr, 'Abdullah's mother). But she refused to come. He again sent the messenger to her with the message that she must come, otherwise he would bring her forcibly catching hold of her hair. But she again refused and said: By Allah, I will not come to you until you send one to me who would drag me by pulling my hair. Thereupon he said: Bring me my shoes. He put on his shoes and walked on quickly swollen with vanity and pride until he came to her and said: How do you find what I have done with the enemy of Allah? She said: I find that you wronged him in this world, whereas he has spoiled your next life. It has been conveyed to me that you used to call him ('Abdullah b. Zubair) as the son of one having two belts. By Allah, I am indeed (a woman) of two belts. One is that with the help of which I used to suspend high the food of Allah's Messenger (may peace be upon him) and that of Abu Bakr (making it out of the reach) of animals and, so far as the second belt is concerned, that is the belt which no woman can dispense with. Verily Allah's Messenger (may peace be upon him) told us that in Thaqif, there would be born a great liar and great murderer. The liar we have seen, and as far as the murderer is concerned, I do not find anyone else besides you. 'Thereupon he (Hajjaj) stood up and did not give any reply to her.