طاعون بدفالی اور کہانت وغیرہ کے بیان میں ۔
راوی: یحیی بن یحیی تمیمی , مالک بن شہاب عبدالحمید بن عبدالرحمن بن زید بن خطاب عبداللہ بن عبداللہ بن حارث ابن نوفل ابن عباس عمر بن خطاب ابن عباس
حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَحْيَی التَّمِيمِيُّ قَالَ قَرَأْتُ عَلَی مَالِکٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَرَجَ إِلَی الشَّامِ حَتَّی إِذَا کَانَ بِسَرْغَ لَقِيَهُ أَهْلُ الْأَجْنَادِ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ وَأَصْحَابُهُ فَأَخْبَرُوهُ أَنَّ الْوَبَائَ قَدْ وَقَعَ بِالشَّامِ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَقَالَ عُمَرُ ادْعُ لِي الْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ فَدَعَوْتُهُمْ فَاسْتَشَارَهُمْ وَأَخْبَرَهُمْ أَنَّ الْوَبَائَ قَدْ وَقَعَ بِالشَّامِ فَاخْتَلَفُوا فَقَالَ بَعْضُهُمْ قَدْ خَرَجْتَ لِأَمْرٍ وَلَا نَرَی أَنْ تَرْجِعَ عَنْهُ وَقَالَ بَعْضُهُمْ مَعَکَ بَقِيَّةُ النَّاسِ وَأَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا نَرَی أَنْ تُقْدِمَهُمْ عَلَی هَذَا الْوَبَائِ فَقَالَ ارْتَفِعُوا عَنِّي ثُمَّ قَالَ ادْعُ لِي الْأَنْصَارِ فَدَعَوْتُهُمْ لَهُ فَاسْتَشَارَهُمْ فَسَلَکُوا سَبِيلَ الْمُهَاجِرِينَ وَاخْتَلَفُوا کَاخْتِلَافِهِمْ فَقَالَ ارْتَفِعُوا عَنِّي ثُمَّ قَالَ ادْعُ لِي مَنْ کَانَ هَاهُنَا مِنْ مَشْيَخَةِ قُرَيْشٍ مِنْ مُهَاجِرَةِ الْفَتْحِ فَدَعَوْتُهُمْ فَلَمْ يَخْتَلِفْ عَلَيْهِ رَجُلَانِ فَقَالُوا نَرَی أَنْ تَرْجِعَ بِالنَّاسِ وَلَا تُقْدِمَهُمْ عَلَی هَذَا الْوَبَائِ فَنَادَی عُمَرُ فِي النَّاسِ إِنِّي مُصْبِحٌ عَلَی ظَهْرٍ فَأَصْبِحُوا عَلَيْهِ فَقَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ أَفِرَارًا مِنْ قَدَرِ اللَّهِ فَقَالَ عُمَرُ لَوْ غَيْرُکَ قَالَهَا يَا أَبَا عُبَيْدَةَ وَکَانَ عُمَرُ يَکْرَهُ خِلَافَهُ نَعَمْ نَفِرُّ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ إِلَی قَدَرِ اللَّهِ أَرَأَيْتَ لَوْ کَانَتْ لَکَ إِبِلٌ فَهَبَطَتْ وَادِيًا لَهُ عُدْوَتَانِ إِحْدَاهُمَا خَصْبَةٌ وَالْأُخْرَی جَدْبَةٌ أَلَيْسَ إِنْ رَعَيْتَ الْخَصْبَةَ رَعَيْتَهَا بِقَدَرِ اللَّهِ وَإِنْ رَعَيْتَ الْجَدْبَةَ رَعَيْتَهَا بِقَدَرِ اللَّهِ قَالَ فَجَائَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ وَکَانَ مُتَغَيِّبًا فِي بَعْضِ حَاجَتِهِ فَقَالَ إِنَّ عِنْدِي مِنْ هَذَا عِلْمًا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ فَلَا تَقْدَمُوا عَلَيْهِ وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلَا تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ قَالَ فَحَمِدَ اللَّهَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ثُمَّ انْصَرَفَ
یحیی بن یحیی تمیمی، مالک بن شہاب عبدالحمید بن عبدالرحمن بن زید بن خطاب عبداللہ بن عبداللہ بن حارث ابن نوفل، عمر بن خطاب، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ شام کی طرف چلے جب مقام سرغ پہنچے تو لشکر والوں میں سے حضرت عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خبر دی کہ شام میں وباء پھیل چکی ہے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میرے پاس مہاجرین اولین کو بلاؤ میں ان کو بلا لایا آپ نے ان سے مشورہ کیا اور انہیں خبر دی کہ شام میں وباء پھیل چکی ہے پس انہوں نے اختلاف کیا ان میں سے بعض نے کہا آپ جس کام کے لئے نکل چکے ہیں ہمارا خیال ہے کہ آپ واپس نہ ہوں اور بعض نے کہا آپ کے ساتھ بعض متقدمین اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ہیں۔ ہمارے خیال میں آپ کا انہیں اس وبا کی طرف لے جانا مناسب نہیں آپ نے کہا اچھا تم جاؤ پھر کہا میرے پاس انصار کو بلاؤ میں نے آپ کے لئے انہیں بلایا آپ نے ان سے مشورہ کیا تو وہ بھی مہاجرین کے راستہ پر چلے اور ان کے اختلاف کی طرح انہوں نے بھی اختلاف کیا آپ نے کہا میرے پاس سے تشریف لے جائیں پھر آپ نے کہا میرے پاس مہاجرین فتح مکہ سے قریشی بزرگوں کو لاؤ میں ان کو بلا لیا ان میں سے دو آدمیوں نے بھی اختلاف نہ کیا سب حضرات نے کہا کہ ہمارا خیال ہے کہ آپ لوگوں کے ساتھ واپس چلے جائیں اور ان کو اس وباء میں نہ لے جائیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں میں اعلان کردیا کہ میں سواری کی حالت میں صبح کرنے والا ہوں پس لوگ بھی سوار ہو گئے تو ابوعبیدہ بن جراح نے کہا کیا تم اللہ کی تقدیر سے فرار ہو رہے ہو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اے ابوعبیدہ کاش یہ بات کہنے والا آپ کے سوا کوئی اور ہوتا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان سے اختلاف کرنے کو پسند نہ کرتے تھے کہا ہاں ہم اللہ کی تقدیر سے اللہ کی تقدیر ہی کی طرف جا رہے ہیں آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر آپ کے پاس اونٹ ہوں اور آپ ایسی وادی میں اتریں جس کی دو گھاٹیاں ہوں ان میں سے ایک سرسبز اور دوسری خشک اور ویران و بنجر اگر آپ انہیں سر سبز وشاداب وادی میں چرائیں تو کیا یہ اللہ کی تقدیر سے نہ ہوگا اور اگر انہیں بنجر و ویران میں چرائیں تو کیا یہ بھی تقدیر الٰہی سے نہ ہوگا اتنے میں حضرت عبدالرحمن بن عوف بھی آگئے جو کہ اپنی کسی ضرورت کی وجہ سے موجود نہ تھے انہوں نے کہا میرے پاس اس بارے میں علم ہے میں نے رسول اللہ سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے جب تم کسی علاقہ کے بارے میں اس اطلاع کو سنو تو وہاں مت جاؤ اور جب یہ کسی علاقہ میں پھیل جائے اور تم وہاں موجود ہو تو اس سے فرار اختیار کرتے ہوئے مت نکلو ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا پھر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ کی حمد بیان کی اور لوٹ گئے۔
'Abdullah b. 'Abbas reported: Umar b. Khattab set out for Syria. As he came at Sargh (a town by the side of Hijaz on the way to Syria), there met him the commander of the forces, Abu Ubaida b. Jandb, and his companions. They informed him that a scourge had broken out in Syria. Ibn 'Abbas further reported that 'Umar said: Call to me the earliest emigrants. So I called them. He (Hadrat 'Umar) sought their advice, and they told him that the scourge had broken out in Syria. There was a difference of opinion (whether they should proceed further or go back to their homes in such a situation). Some of them said: You ('Umar) have set forth for a task, and, therefore, we would not advise you to go back, whereas some of them said: You have along with you the remnants (of the sacred galaxy) of men and (the blessed) Companions of Allah's Messenger (may peace be upon him), so we would not advise you to go forth towards this calamity (with such eminent persons and thus expose them deliberately to a danger). He (Hadrat 'Umar) said: You can now go away. He said: Call to me the Ansar. So I called them to him, and he consulted them, and they trod the same path as was trodden by the Muhajirin, and they differed in their opinions as they had differed. He said: Now, you can go. He again said: Call to me the old persons of the Quraish who had migrated before the Victory (that is the Victory of Mecca), so I called them (and Hadrat 'Umar consulted them) and not even two persons differed (from the opinion held by the earlier delegates). They said: Our opinion is that you better go back along with the people and do not make them go to this scourge, So 'Umar made announcement to the people: In the morning I would be on the back of my side. So they (set forth in the morning), whereupon Abu 'Ubaida b. Jarrah said: Are you going to run away from the Divine Decree? Thereupon 'Umar said: Had it been someone else to say this besides you! 'Umar (in fact) did not approve of his opposing (this decision) and he said: Yes, we are running from the Divine Decree (to the) Divine Decree. You should think if there had been camels for you and you happened to get down in a valley having two sides, one of them covered with verdure and the other being barren, would you not (be doing) according to the Divine Decree if you graze them in verdure? And in case you graze them in the barren land (even then you would be grazing them) according to the Divine Decree.
There happened to come 'Abd al-Rahman b. 'Auf and he had been absent in connection with some of his needs. He said: I have with me a knowledge of it, that I heard Allah's Messenger (may peace be upon him) as saying: If you hear of its presence (the presence of plague) in a land, don't enter it, but if it spreads in the land where you are, don't fly from it. Thereupon 'Umar b. Khattab praised Allah and then went back?