صحیح مسلم ۔ جلد دوم ۔ کھیتی باڑی کا بیان ۔ حدیث 1607

اونٹ کی بیع اور سواری کے استثناء کے بیان میں

راوی: عثمان بن ابی شیبہ , اسحاق بن ابراہیم , جریر , مغیرہ , شعبی , جابر بن عبداللہ

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَإِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَاللَّفْظُ لِعُثْمَانَ قَالَ إِسْحَقُ أَخْبَرَنَا وَقَالَ عُثْمَانُ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مُغِيرَةَ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَلَاحَقَ بِي وَتَحْتِي نَاضِحٌ لِي قَدْ أَعْيَا وَلَا يَکَادُ يَسِيرُ قَالَ فَقَالَ لِي مَا لِبَعِيرِکَ قَالَ قُلْتُ عَلِيلٌ قَالَ فَتَخَلَّفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَزَجَرَهُ وَدَعَا لَهُ فَمَا زَالَ بَيْنَ يَدَيْ الْإِبِلِ قُدَّامَهَا يَسِيرُ قَالَ فَقَالَ لِي کَيْفَ تَرَی بَعِيرَکَ قَالَ قُلْتُ بِخَيْرٍ قَدْ أَصَابَتْهُ بَرَکَتُکَ قَالَ أَفَتَبِيعُنِيهِ فَاسْتَحْيَيْتُ وَلَمْ يَکُنْ لَنَا نَاضِحٌ غَيْرُهُ قَالَ فَقُلْتُ نَعَمْ فَبِعْتُهُ إِيَّاهُ عَلَی أَنَّ لِي فَقَارَ ظَهْرِهِ حَتَّی أَبْلُغَ الْمَدِينَةَ قَالَ فَقُلْتُ لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي عَرُوسٌ فَاسْتَأْذَنْتُهُ فَأَذِنَ لِي فَتَقَدَّمْتُ النَّاسَ إِلَی الْمَدِينَةِ حَتَّی انْتَهَيْتُ فَلَقِيَنِي خَالِي فَسَأَلَنِي عَنْ الْبَعِيرِ فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا صَنَعْتُ فِيهِ فَلَامَنِي فِيهِ قَالَ وَقَدْ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِي حِينَ اسْتَأْذَنْتُهُ مَا تَزَوَّجْتَ أَبِکْرًا أَمْ ثَيِّبًا فَقُلْتُ لَهُ تَزَوَّجْتُ ثَيِّبًا قَالَ أَفَلَا تَزَوَّجْتَ بِکْرًا تُلَاعِبُکَ وَتُلَاعِبُهَا فَقُلْتُ لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ تُوُفِّيَ وَالِدِي أَوْ اسْتُشْهِدَ وَلِي أَخَوَاتٌ صِغَارٌ فَکَرِهْتُ أَنْ أَتَزَوَّجَ إِلَيْهِنَّ مِثْلَهُنَّ فَلَا تُؤَدِّبُهُنَّ وَلَا تَقُومُ عَلَيْهِنَّ فَتَزَوَّجْتُ ثَيِّبًا لِتَقُومَ عَلَيْهِنَّ وَتُؤَدِّبَهُنَّ قَالَ فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ غَدَوْتُ إِلَيْهِ بِالْبَعِيرِ فَأَعْطَانِي ثَمَنَهُ وَرَدَّهُ عَلَيَّ

عثمان بن ابی شیبہ، اسحاق بن ابراہیم، جریر، مغیرہ، شعبی، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے ملے اور میری سواری پانی لانے والا ایک اونٹ تھا جو تھک گیا اور چلنے سے عاجز آ گیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا تیرے اونٹ کو کیا ہوگیا میں نے عرض کیا بیمار ہوگیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیچھے ہوئے اور اونٹ کو ڈانٹا اور اس کے لئے دعا کی پھر وہ ہمیشہ سب اونٹوں سے آگے ہی چلتا رہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے کہا اب اپنے اونٹ کو تو کیسا خیال کرتا ہے میں نے عرض کیا بہت اچھا تحقیق اسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت پہنچی ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تو اسے مجھے فروخت کرتا ہے میں نے شرم کی اور میرے پاس اس اونٹ کے علاوہ کوئی دوسرا پانی لانے والا نہ تھا میں نے عرض کیا جی ہاں پھر میں نے اس شرط پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہ اونٹ بیچ دیا کہ میں مدینہ کے پہنچنے تک اس پر سواری کروں گا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری نئی نئی شادی ہوئی ہے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اجازت دے دی میں لوگوں سے پہلے ہی مدینہ پہنچ گیا جب میں پہنچا میرے ماموں نے مجھ سے اونٹ کے بارے میں پوچھا تو میں نے انہیں اس کی خبر دی جو میں کر چکا تھا تو اس نے مجھے اس بارے میں ملامت کی حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت طلب کی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تو نے کنورای سے شادی کی ہے یا بیوہ سے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ میں نے بیوہ سے شادی کی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا تو نے کنواری سے شادی کیوں نہ کی کہ تم اس سے کھیلتے اور وہ تم سے کھیلتی میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میرے والد فوت یا شہید ہو چکے ہیں اور میری چھوٹی چھوٹی بہنیں ہیں میں نے ان کی ہم عمر لڑکی سے نکاح کرنا پسند نہ کیا جو انہیں ادب نہ سکھائے اور نہ ان کی نگرانی کرے بیوہ سے شادی میں نے اس لئے کی ہے تاکہ وہ ان کی نگرانی کرے اور ان کو ادب سکھائے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ آئے تو میں صبح صبح ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اونٹ لے کر حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی قیمت ادا کر دی اور وہ اونٹ بھی مجھے واپس کردیا۔

Jabir b. 'Abdullah (Allah be pleased with them) reported: I went on an expedition with Allah's Messenger (may peace be upon him). He overtook me and I was on a water-carrying camel who had grown tired and did not walk (trot). He (the Holy Prophet) said to me: What is the matter with your camel? I said: It is sick. He (the Holy Prophet) stepped behind and drove it and prayed for it, and then it always moved ahead of other camels. He (then) said: How do you find your camel? I said: It is, by the grace of your prayer, all right. He said: Would you sell this (camel) to me? I felt shy (to say him," No" ) as we had no other camel for carrying water, but (later on) I said: Yes, and to I sold it to him on the condition that (I would be permitted) to ride it until I reached Madina. I said to him: Allah's Messenger, I am newly married, so I asked his permission (to go ahead of the caravan). He permitted me, and I reached Medina well in advance of other people, until I reached my destination. There my maternal uncle met me and asked me about the camel, and I told him what I had done with regard to it. He reproved me in this connection. He (Jabir) said: When I asked his permission (to go ahead of the caravan) Allah's Messenger (may peace be upon him) inquired of me whether I had married a virgin or a non-virgin. I said to him: I have married a non-virgin. He said: Why did you not marry a virgin who would have played with you and you would have played with her? I said to him: Allah's Messenger, my father died (or he fell as a martyr), and I have small sisters to (look after), so I did not like the idea that I should marry a woman who is like them and thus be not able to teach them manners and look after them properly. So I have married a non-virgin so that she should be able to look after them and teach them manners, When Allah's Messenger (may peace be upon him) came to Medina, I went to him in the morning with the camel. He paid me its price and returned that (the camel) to me.

یہ حدیث شیئر کریں