صحیح مسلم ۔ جلد دوم ۔ طلاق کا بیان ۔ حدیث 1202

ایلاء اور عورتوں سے جدا ہونے اور انہیں اختیار دینے اور اللہ کے قول ان تظاہرا علیہ کے بیان میں

راوی: اسحاق بن ابراہیم حنظلی , محمد بن ابی عمر , اسحاق , عبدالرزاق , معمر , زہری , عبیداللہ بن عبداللہ بن ابی ثور , ابن عباس

و حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ وَتَقَارَبَا فِي لَفْظِ الْحَدِيثِ قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا و قَالَ إِسْحَقُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَمْ أَزَلْ حَرِيصًا أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ عَنْ الْمَرْأَتَيْنِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّتَيْنِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَی إِنْ تَتُوبَا إِلَی اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُکُمَا حَتَّی حَجَّ عُمَرُ وَحَجَجْتُ مَعَهُ فَلَمَّا کُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ عَدَلَ عُمَرُ وَعَدَلْتُ مَعَهُ بِالْإِدَاوَةِ فَتَبَرَّزَ ثُمَّ أَتَانِي فَسَکَبْتُ عَلَی يَدَيْهِ فَتَوَضَّأَ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَنْ الْمَرْأَتَانِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّتَانِ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُمَا إِنْ تَتُوبَا إِلَی اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُکُمَا قَالَ عُمَرُ وَاعَجَبًا لَکَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ الزُّهْرِيُّ کَرِهَ وَاللَّهِ مَا سَأَلَهُ عَنْهُ وَلَمْ يَکْتُمْهُ قَالَ هِيَ حَفْصَةُ وَعَائِشَةُ ثُمَّ أَخَذَ يَسُوقُ الْحَدِيثَ قَالَ کُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ قَوْمًا نَغْلِبُ النِّسَائَ فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ وَجَدْنَا قَوْمًا تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَتَعَلَّمْنَ مِنْ نِسَائِهِمْ قَالَ وَکَانَ مَنْزِلِي فِي بَنِي أُمَيَّةَ بْنِ زَيْدٍ بِالْعَوَالِي فَتَغَضَّبْتُ يَوْمًا عَلَی امْرَأَتِي فَإِذَا هِيَ تُرَاجِعُنِي فَأَنْکَرْتُ أَنْ تُرَاجِعَنِي فَقَالَتْ مَا تُنْکِرُ أَنْ أُرَاجِعَکَ فَوَاللَّهِ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُرَاجِعْنَهُ وَتَهْجُرُهُ إِحْدَاهُنَّ الْيَوْمَ إِلَی اللَّيْلِ فَانْطَلَقْتُ فَدَخَلْتُ عَلَی حَفْصَةَ فَقُلْتُ أَتُرَاجِعِينَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ نَعَمْ فَقُلْتُ أَتَهْجُرُهُ إِحْدَاکُنَّ الْيَوْمَ إِلَی اللَّيْلِ قَالَتْ نَعَمْ قُلْتُ قَدْ خَابَ مَنْ فَعَلَ ذَلِکَ مِنْکُنَّ وَخَسِرَ أَفَتَأْمَنُ إِحْدَاکُنَّ أَنْ يَغْضَبَ اللَّهُ عَلَيْهَا لِغَضَبِ رَسُولِهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا هِيَ قَدْ هَلَکَتْ لَا تُرَاجِعِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا تَسْأَلِيهِ شَيْئًا وَسَلِينِي مَا بَدَا لَکِ وَلَا يَغُرَّنَّکِ أَنْ کَانَتْ جَارَتُکِ هِيَ أَوْسَمَ وَأَحَبَّ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْکِ يُرِيدُ عَائِشَةَ قَالَ وَکَانَ لِي جَارٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَکُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُولَ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَنْزِلُ يَوْمًا وَأَنْزِلُ يَوْمًا فَيَأْتِينِي بِخَبَرِ الْوَحْيِ وَغَيْرِهِ وَآتِيهِ بِمِثْلِ ذَلِکَ وَکُنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّ غَسَّانَ تُنْعِلُ الْخَيْلَ لِتَغْزُوَنَا فَنَزَلَ صَاحِبِي ثُمَّ أَتَانِي عِشَائً فَضَرَبَ بَابِي ثُمَّ نَادَانِي فَخَرَجْتُ إِلَيْهِ فَقَالَ حَدَثَ أَمْرٌ عَظِيمٌ قُلْتُ مَاذَا أَجَائَتْ غَسَّانُ قَالَ لَا بَلْ أَعْظَمُ مِنْ ذَلِکَ وَأَطْوَلُ طَلَّقَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَائَهُ فَقُلْتُ قَدْ خَابَتْ حَفْصَةُ وَخَسِرَتْ قَدْ کُنْتُ أَظُنُّ هَذَا کَائِنًا حَتَّی إِذَا صَلَّيْتُ الصُّبْحَ شَدَدْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي ثُمَّ نَزَلْتُ فَدَخَلْتُ عَلَی حَفْصَةَ وَهِيَ تَبْکِي فَقُلْتُ أَطَلَّقَکُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ لَا أَدْرِي هَا هُوَ ذَا مُعْتَزِلٌ فِي هَذِهِ الْمَشْرُبَةِ فَأَتَيْتُ غُلَامًا لَهُ أَسْوَدَ فَقُلْتُ اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ فَقَالَ قَدْ ذَکَرْتُکَ لَهُ فَصَمَتَ فَانْطَلَقْتُ حَتَّی انْتَهَيْتُ إِلَی الْمِنْبَرِ فَجَلَسْتُ فَإِذَا عِنْدَهُ رَهْطٌ جُلُوسٌ يَبْکِي بَعْضُهُمْ فَجَلَسْتُ قَلِيلًا ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ ثُمَّ أَتَيْتُ الْغُلَامَ فَقُلْتُ اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ فَقَالَ قَدْ ذَکَرْتُکَ لَهُ فَصَمَتَ فَوَلَّيْتُ مُدْبِرًا فَإِذَا الْغُلَامُ يَدْعُونِي فَقَالَ ادْخُلْ فَقَدْ أَذِنَ لَکَ فَدَخَلْتُ فَسَلَّمْتُ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا هُوَ مُتَّکِئٌ عَلَی رَمْلِ حَصِيرٍ قَدْ أَثَّرَ فِي جَنْبِهِ فَقُلْتُ أَطَلَّقْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ نِسَائَکَ فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَيَّ وَقَالَ لَا فَقُلْتُ اللَّهُ أَکْبَرُ لَوْ رَأَيْتَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَکُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ قَوْمًا نَغْلِبُ النِّسَائَ فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ وَجَدْنَا قَوْمًا تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَتَعَلَّمْنَ مِنْ نِسَائِهِمْ فَتَغَضَّبْتُ عَلَی امْرَأَتِي يَوْمًا فَإِذَا هِيَ تُرَاجِعُنِي فَأَنْکَرْتُ أَنْ تُرَاجِعَنِي فَقَالَتْ مَا تُنْکِرُ أَنْ أُرَاجِعَکَ فَوَاللَّهِ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُرَاجِعْنَهُ وَتَهْجُرُهُ إِحْدَاهُنَّ الْيَوْمَ إِلَی اللَّيْلِ فَقُلْتُ قَدْ خَابَ مَنْ فَعَلَ ذَلِکِ مِنْهُنَّ وَخَسِرَ أَفَتَأْمَنُ إِحْدَاهُنَّ أَنْ يَغْضَبَ اللَّهُ عَلَيْهَا لِغَضَبِ رَسُولِهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا هِيَ قَدْ هَلَکَتْ فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ دَخَلْتُ عَلَی حَفْصَةَ فَقُلْتُ لَا يَغُرَّنَّکِ أَنْ کَانَتْ جَارَتُکِ هِيَ أَوْسَمُ مِنْکِ وَأَحَبُّ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْکِ فَتَبَسَّمَ أُخْرَی فَقُلْتُ أَسْتَأْنِسُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ نَعَمْ فَجَلَسْتُ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فِي الْبَيْتِ فَوَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ فِيهِ شَيْئًا يَرُدُّ الْبَصَرَ إِلَّا أُهَبًا ثَلَاثَةً فَقُلْتُ ادْعُ اللَّهَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ يُوَسِّعَ عَلَی أُمَّتِکَ فَقَدْ وَسَّعَ عَلَی فَارِسَ وَالرُّومِ وَهُمْ لَا يَعْبُدُونَ اللَّهَ فَاسْتَوَی جَالِسًا ثُمَّ قَالَ أَفِي شَکٍّ أَنْتَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ أُولَئِکَ قَوْمٌ عُجِّلَتْ لَهُمْ طَيِّبَاتُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَقُلْتُ اسْتَغْفِرْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ وَکَانَ أَقْسَمَ أَنْ لَا يَدْخُلَ عَلَيْهِنَّ شَهْرًا مِنْ شِدَّةِ مَوْجِدَتِهِ عَلَيْهِنَّ حَتَّی عَاتَبَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ

اسحاق بن ابراہیم حنظلی، محمد بن ابی عمر، اسحاق، عبدالرزاق، معمر، زہری، عبیداللہ بن عبداللہ بن ابی ثور، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ میں ہمیشہ اس بات کا حریص اور خواہش مند رہا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ازواج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے ان دو عورتوں کے بارے میں پوچھوں جن کے بارے میں اللہ نے فرمایا اگر تم دونوں رجوع کرلو اللہ کی طرف تو تمہارے دل جھک جائیں گے یہاں تک کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حج کیا اور میں نے بھی ان کے ساتھ حج کیا ہم جب کسی راستہ میں تھے اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راستہ سے کنارہ پر ہوئے تو میں بھی برتن لے کر کنارے پر ہوگیا انہوں نے حاجت پوری کی پھر وہ میرے پاس آئے میں نے ان پر پانی ڈالنا شروع کیا تو انہوں نے وضو کیا میں نے کہا اے امیر المومنین! وہ دو عورتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویوں میں سے کون تھیں جن کے بارے میں اللہ عزوجل نے فرمایا اگر تم اللہ کی طرف رجوع کرلو تو تمہارے دل جھکے رہیں عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اے ابن عباس! تیرے لئے تعجب ہے زہری نے کہا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ان کا اس بارے میں پوچھنا ناپسند ہوا اور کیوں لاعلمی میں اسے چھپائے رکھا کہا وہ حفصہ اور عائشہ تھیں پھر حدیث بیان کرنا شروع کی اور کہا ہم قریش کے نوجوان ایسی قوم میں تھے جو عورتوں پر غلبہ رکھتے تھے جب ہم مدینہ آئے تو ہم نے ایسی قوم پائی کہ انہیں ان کی عورتیں مغلوب رکھتی تھیں ہماری عورتوں نے ان کی عورتوں کی عادات اختیار کرنا شروع کردیں اور میرا گھر مدینہ کی بلندی پر بنی امیہ بن زید میں تھا میں ایک دن اپنی بیوی پر غصے ہوا تو اس نے مجھے جواب دیا میں نے اس کو جواب دینے کو برا جانا اس نے کہا تم میرے جواب دینے کو کیوں برا جانتے ہو اللہ کی قسم! نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جواب دیتی ہیں اور ان میں سے کوئی ایک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھوڑ دیتی ہے دن سے رات تک میں چلا اور حفصہ (اپنی بیٹی) کے پاس پہنچا میں نے کہا کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جواب دیتی ہے؟ اس نے کہا ہاں میں نے کہا کیا تم سے کوئی ایک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دن سے رات تک چھوڑے رکھتی ہے؟ اس نے کہا ہاں میں نے کہا تم میں سے جس نے ایسا کیا وہ محروم اور نقصان اٹھائے گی کیا تم میں سے ہر ایک اس بات سے نہیں ڈرتی کہ اللہ اس پر اپنے رسول کی ناراضگی کی وجہ سے غصہ کرے جس کی وجہ سے وہ اچانک ہلاک ہو جائے گی تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جواب نہ دیا کرو اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کسی چیز کا سوال کرو اور جو تیری ضرورت ہو وہ مجھ سے مانگ لے اور تجھے تیری ہمسائی دھوکے میں نہ ڈالے وہ تجھ سے زیادہ حسین ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو زیادہ محبوب ہے یعنی عائشہ اور میرا ایک ہمسایہ انصاری تھا پس ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس باری باری حاضر ہوتے تھے ایک دن وہ آتا اور ایک دن میں وہ میرے پاس وحی وغیرہ کی خبر لاتا میں بھی اسی طرح اس کو خبر دیتا اور ہم گفتگو کرتے تھے کہ غسان کا بادشاہ اپنے گھوڑوں کے پیروں میں نعل لگوا رہا ہے تاکہ وہ ہم سے لڑیں پس میرا ساتھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گیا پھر عشاء کو میرے پاس آیا اور میرا دروازہ کھٹکھٹا کر مجھے آواز دی میں اس کی طرف نکلا تو اس نے کہا ایک بڑا واقعہ پیش آیا ہے میں نے کہا کیا بادشاہ غسان آگیا ہے اس نے کہا نہیں اس سے بھی بڑا اور سخت کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے میں کہا بد نصیب ہوئی حفصہ اور گھاٹے میں پڑی اور میں گمان کرتا تھا کہ یہ ہونے والا ہے یہاں تک کہ میں نے صبح کی نماز ادا کی اپنے کپڑے پہنے پھر نیچے کی جانب اترا اور حفصہ کے پاس گیا تو وہ رو رہی تھی میں نے کہا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تم کو طلاق دے دی ہے اس نے کہا میں نہیں جاتنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم سے علیحدہ ہو کر اس بالاخانہ میں تشریف فرما ہیں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام اسود کے پاس آیا میں نے کہا عمر کے لئے اجازت لو وہ اندر داخل ہوا پھر میری طرف آیا اور کہا کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تمہارا ذکر کیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے میں چلا یہاں تک کہ منبر تک پہنچا اور میں بیٹھ گیا اور یہاں پاس ہی کچھ لوگ بیٹھے تھے اور ان میں سے بعض رو رہے تھے میں تھوڑی دیر بیٹھا رہا پھر مجھے اسی خیال کا غلبہ ہوا میں پھر غلام کے پاس آیا اس سے کہا کہ عمر کے لئے اجازت لو وہ داخل ہوا پھر میری طرف نکلا تو کہا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تمہارا ذکر کیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے میں پیٹھ پھیر کر واپس ہوا کہ غلام نے مجھے پکار کر کہا داخل ہو جائیں آپ کے لئے اجازت دے دی گئی ہے میں نے داخل ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کیا آپ ایک بورئیے کی چٹائی پر تکیہ لگائے ہوئے تھے جس کے نشانات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلو پر لگ چکے تھے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری طرف اپنا سر اٹھا کر فرمایا نہیں میں نے کہا اَللَّهُ أَکْبَرُ! کاش آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں دیکھتے اے اللہ کے رسول! کہ قریشی قوم تھی عورتوں کو مغلوب رکھتے تھے جب ہم مدینہ آئے تو ہم نے ایسی قوم پائی جن پر ان کی عورتیں غالب تھیں ہماری عورتوں نے ان کی عورتوں سے عادات سیکھنا شروع کردیں میں ایک دن اپنی عورت پر غصے ہوا تو اس نے مجھے جواب دینا شروع کردیا میں نے اس کے جواب دینے کو برا محسوس کیا تو اس نے کہا کہ تم میرا جواب دینے کو برا تصور کرتے ہو اللہ کی قسم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جواب دیتی ہیں اور ان میں کوئی ایک دن سے رات تک چھوڑ بھی دیتی ہے تو میں نے کہا بد نصیب ہوئی ان میں سے جس نے ایسا کیا اور نقصان اٹھایا ان میں سے کوئی اللہ کے غضب سے اور رسول اللہ کی ناراضگی سے کیسے بچ سکتی ہے پس وہ ہلاک ہی ہوگئی تو رسول اللہ مسکرائے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! میں حفصہ کے پاس گیا میں نے کہا تجھے دھوکہ میں نہ ڈالے کہ تیری ہمسائی تجھ سے زیادہ خوبصورت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پسندیدہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسری مرتبہ تبسم فرمایا میں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میں کوئی دل لگانے والی بات کروں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں سر اٹھا کر نظر دوڑائی پھر میں نے گھر میں سر اٹھایا تو اللہ کی قسم میں نے کوئی چیز نہ دیکھی جسے دیکھ کر میری نگاہ پھرتی سوائے تین چمڑوں کے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ سے دعا کریں کہ اللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت پر وسعت کر دے جیسا کہ فارس و روم پر وسعت کی ہے حالانکہ وہ اللہ کی عبادت نہیں کرتے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدھے ہو کر بیٹھ گئے پھر فرمایا اے ابن خطاب کیا تو شک میں ہے ان لوگوں کی عمدہ چیزیں انہیں دنیا ہی میں دے دی گئی ہیں میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میرے لئے مغفرت طلب کریں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سخت غصہ کی وجہ سے قسم کھائی کہ ایک مہینہ تک اپنی بیویوں کے پاس نہ جاؤں گا یہاں تک کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عتاب فرمایا۔

Ibn 'Abbas (Allah be pleased with them) reported. I had always been anxious to ask 'Umar (Allah be pleased with him) about the two ladies amongst the wives of Allah's Prophet (may peace be upon him) about whom Allah, the Exalted, said: "If you both turn in repentance to Allah, then indeed your hearts are inclined (to this)" (Ixvi. 4), until 'Umar (Allah be pleased with him) set out for Hajj and I also went along with him. And as we were going along a path, 'Umar (Allah be pleased with him) went aside and I also went aside with him with a jug (of water). He answered the call of nature, and then came to me and I poured water over his hands and he performed ablution I said: Commander of the Faithful, who are the two ladies amongst the wives of Allah's Prophet (may peace be upon him) about whom Allah, the Exalted and Majestic, said: 'If you both turn to Allah in repentance, then indeed your heart are inclined to it"? 'Umar (Allah he pleased with him) said: How strange is it for you, Ibn 'Abbas! (Zuhri said: By Allah, he disliked what he asked about, but did not keep it a secret.) He ('Umar) said: They are Hafsa and 'A'isha; and he then began to narrate the hadith and said: We were such people among the Quraish who dominated women, and as we reached Medina we found there people who were dominated by their women, and our women began to learn (the habits) of their women. He further said: And my house was situated in the suburb of Almedina in the tribe of Banu Umayya b. Zaid. One day I became angry with my wife and she retorted upon me. I did not like that she should retort upon me. She said: You disapprove of my retorting upon you by Allah, the wives of Allah's Apostle (may peace be upon him) retort upon him, and one of them detaches herself from him for the day until the night. So I ('Umar) went out and visited Hafsa and said: Do you retort upon Allah's Messenger (may peace be upon him)? She said: Yes. I said; Does any one of you detach herself from him from the day to the night? She said: Yes. He said: She who did like it amongst you in fact failed and incurred loss. Does everyone amongst you not fear the wrath of Allah upon her due to the wrath of His Messenger (may peace be upon him), and (as a result thereof) she may perish? So do not retort upon Allah's Messenger (may peace be upon him) and do not ask him for anything, but ask me that which you desire, (and the frank behaviour) of your companion may not mislead you, if she is more graceful and is dearer to Allah's Messenger (may peace be upon him) than you (meaning 'A'isha) (Allah be pleased with her).
He (Hadrat 'Umar further) said: I had a companion from the Ansar and we used to remain in the company of the Messenger (may peace be upon him) turn by turn. He remained there for a day while I remained there on the other day, and he brought me the news about the revelation and other matters, and I brought him the news like this. And we discussed that the Ghassanids were shoeing the horses in order to attack us. My companion once attended (the Apostle) and then came to me at night and knocked at my door and called me, and I came out to him, and he said: A matter of great importance has happened. I said: What is that? Have the Ghassanids come? He said: No, but even more serious and more significant than that: the Holy Prophet (may peace be upon him) has divorced his wives. I said: Hafsa has failed and has incurred loss and I feared that it would happen. When it was dawn I observed the dawn prayer and dressed myself, and then came there (in the house of the Holy Prophet) and visited Hafsa, and she was weeping. I said: Has Allah's Messenger (may peace be upon him) divorced you (all)? She said: I do not know. He has, however, separated himself in his attic. I came to a black servant and said to him: Seek permission for 'Umar. He went in and then came to me and said: I made mention of you to him, but he kept quiet. I then went to the pulpit and sat there, and there was a group of people sitting by it and some of them were weeping. I sat there for some time, until I was overpowered (by that very idea) which was in my mind. I then came back to the boy and said to him: Seek permission for Umar. He went in and came to me and said: I made mention of you to him but he kept quiet. I was about to turn back when the boy called me and said: Go in; permission has been granted to you. I went in and greeted Allah's Messenger (may peace be upon him) and he was reclining against the couch of mat and it had left its marks upon his side. I said: Messenger of Allah, have you divorced your wives? He raised his head towards me and said: No. I said: Allah is the Greatest. Messenger of Allah, I wish if you had seen how we, the people of Quraish had domination over women but when we came to Medina we found people whom their women dominated. So our women began to learn from their women. One day I became angry with my wife and she began to retort upon me. I did not approve that she should retort upon me. She said: You do not like that I should retort upon you, but, by Allah. the wives of Allah's Apostle (may peace be upon him) retort upon him and any one of them separates herself from him for a day until night. I said: He who did that amongst them in fact failed and incurred loss. Does any of them feel safe from the wrath of Allah upon her due to the wrath of Allah's Messenger (may peace be upon him), and she has certainly perished. Allah's Messtnger (may peace be upon him) smiled, I said: Messenger of Allah, I visited Hafsa and said: (The behaviour) of your companion ('A'isha) may not mislead you, if she is more graceful than you and is dearer to Allah's Messenger (may peace be upon him) than you.
Allah's Messenger (may peace be upon him) smiled for the second time. I said: Allah's Messenger, may I talk to you about agreeable things? He said: Yes. I sat down and lifted my head (to see things) in the house and, by Allah, I did not see anything significant besides three hides. I said: Messenger of Allah, supplicate the Lord that He should make (life) prosperous for your Ummah as He has made plentiful for the people of Persia and Rome (in spite of the fact) that they do not worship Allah, the Exalted and Majestic, whereupon he (Allah's Messenger) sat up and then said: Ibn Khattab, do you doubt that they are a nation whom their nice things have been given immediately in the life of this world. I said: Allah's Messenger! seek pardon for me. And he (Allah's Messenger) had taken an oath that he would not visit them for a month due to extreme annoyance with them until Allah showed His displeasure to him (Allah's Messenger).

یہ حدیث شیئر کریں