سب سے ادنی درجہ کے جنتی کا بیان۔
راوی: ابوبکر بن ابی شیبہ , محمد بن عبداللہ بن نمیر , یزید , محمد بن بشر , ابوحیان , ابوزرعہ , ابوہریرہ
حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ وَاتَّفَقَا فِي سِيَاقِ الْحَدِيثِ إِلَّا مَا يَزِيدُ أَحَدُهُمَا مِنْ الْحَرْفِ بَعْدَ الْحَرْفِ قَالَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا بِلَحْمٍ فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ وَکَانَتْ تُعْجِبُهُ فَنَهَسَ مِنْهَا نَهْسَةً فَقَالَ أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَهَلْ تَدْرُونَ بِمَ ذَاکَ يَجْمَعُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ فَيُسْمِعُهُمْ الدَّاعِي وَيَنْفُذُهُمْ الْبَصَرُ وَتَدْنُو الشَّمْسُ فَيَبْلُغُ النَّاسَ مِنْ الْغَمِّ وَالْکَرْبِ مَا لَا يُطِيقُونَ وَمَا لَا يَحْتَمِلُونَ فَيَقُولُ بَعْضُ النَّاسِ لِبَعْضٍ أَلَا تَرَوْنَ مَا أَنْتُمْ فِيهِ أَلَا تَرَوْنَ مَا قَدْ بَلَغَکُمْ أَلَا تَنْظُرُونَ مَنْ يَشْفَعُ لَکُمْ إِلَی رَبِّکُمْ فَيَقُولُ بَعْضُ النَّاسِ لِبَعْضٍ ائْتُوا آدَمَ فَيَأْتُونَ آدَمَ فَيَقُولُونَ يَا آدَمُ أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ خَلَقَکَ اللَّهُ بِيَدِهِ وَنَفَخَ فِيکَ مِنْ رُوحِهِ وَأَمَرَ الْمَلَائِکَةَ فَسَجَدُوا لَکَ اشْفَعْ لَنَا إِلَی رَبِّکَ أَلَا تَرَی إِلَی مَا نَحْنُ فِيهِ أَلَا تَرَی إِلَی مَا قَدْ بَلَغَنَا فَيَقُولُ آدَمُ إِنَّ رَبِّي غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ وَإِنَّهُ نَهَانِي عَنْ الشَّجَرَةِ فَعَصَيْتُهُ نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَی غَيْرِي اذْهَبُوا إِلَی نُوحٍ فَيَأْتُونَ نُوحًا فَيَقُولُونَ يَا نُوحُ أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إِلَی الْأَرْضِ وَسَمَّاکَ اللَّهُ عَبْدًا شَکُورًا اشْفَعْ لَنَا إِلَی رَبِّکَ أَلَا تَرَی مَا نَحْنُ فِيهِ أَلَا تَرَی مَا قَدْ بَلَغَنَا فَيَقُولُ لَهُمْ إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ وَإِنَّهُ قَدْ کَانَتْ لِي دَعْوَةٌ دَعَوْتُ بِهَا عَلَی قَوْمِي نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَی إِبْرَاهِيمَ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ فَيَقُولُونَ أَنْتَ نَبِيُّ اللَّهِ وَخَلِيلُهُ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ اشْفَعْ لَنَا إِلَی رَبِّکَ أَلَا تَرَی إِلَی مَا نَحْنُ فِيهِ أَلَا تَرَی إِلَی مَا قَدْ بَلَغَنَا فَيَقُولُ لَهُمْ إِبْرَاهِيمُ إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَا يَغْضَبُ بَعْدَهُ مِثْلَهُ وَذَکَرَ کَذَبَاتِهِ نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَی غَيْرِي اذْهَبُوا إِلَی مُوسَی فَيَأْتُونَ مُوسَی صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَقُولُونَ يَا مُوسَی أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ فَضَّلَکَ اللَّهُ بِرِسَالَاتِهِ وَبِتَکْلِيمِهِ عَلَی النَّاسِ اشْفَعْ لَنَا إِلَی رَبِّکَ أَلَا تَرَی إِلَی مَا نَحْنُ فِيهِ أَلَا تَرَی مَا قَدْ بَلَغَنَا فَيَقُولُ لَهُمْ مُوسَی صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ وَإِنِّي قَتَلْتُ نَفْسًا لَمْ أُومَرْ بِقَتْلِهَا نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَی عِيسَی صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَأْتُونَ عِيسَی فَيَقُولُونَ يَا عِيسَی أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَکَلَّمْتَ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَکَلِمَةٌ مِنْهُ أَلْقَاهَا إِلَی مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ فَاشْفَعْ لَنَا إِلَی رَبِّکَ أَلَا تَرَی مَا نَحْنُ فِيهِ أَلَا تَرَی مَا قَدْ بَلَغَنَا فَيَقُولُ لَهُمْ عِيسَی صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ وَلَمْ يَذْکُرْ لَهُ ذَنْبًا نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَی غَيْرِي اذْهَبُوا إِلَی مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَأْتُونِّي فَيَقُولُونَ يَا مُحَمَّدُ أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَخَاتَمُ الْأَنْبِيَائِ وَغَفَرَ اللَّهُ لَکَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ اشْفَعْ لَنَا إِلَی رَبِّکَ أَلَا تَرَی مَا نَحْنُ فِيهِ أَلَا تَرَی مَا قَدْ بَلَغَنَا فَأَنْطَلِقُ فَآتِي تَحْتَ الْعَرْشِ فَأَقَعُ سَاجِدًا لِرَبِّي ثُمَّ يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَيَّ وَيُلْهِمُنِي مِنْ مَحَامِدِهِ وَحُسْنِ الثَّنَائِ عَلَيْهِ شَيْئًا لَمْ يَفْتَحْهُ لِأَحَدٍ قَبْلِي ثُمَّ يُقَالُ يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَکَ سَلْ تُعْطَهْ اشْفَعْ تُشَفَّعْ فَأَرْفَعُ رَأْسِي فَأَقُولُ يَا رَبِّ أُمَّتِي أُمَّتِي فَيُقَالُ يَا مُحَمَّدُ أَدْخِلْ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِکَ مَنْ لَا حِسَابَ عَلَيْهِ مِنْ الْبَابِ الْأَيْمَنِ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ وَهُمْ شُرَکَائُ النَّاسِ فِيمَا سِوَی ذَلِکَ مِنْ الْأَبْوَابِ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ إِنَّ مَا بَيْنَ الْمِصْرَاعَيْنِ مِنْ مَصَارِيعِ الْجَنَّةِ لَکَمَا بَيْنَ مَکَّةَ وَهَجَرٍ أَوْ کَمَا بَيْنَ مَکَّةَ وَبُصْرَی
ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن عبداللہ بن نمیر، یزید، محمد بن بشر، ابوحیان، ابوزرعہ، ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں گوشت پیش کیا گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دستی کا گوشت پسند تھا اس لئے پوری دستی پیش کی گئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنے دانتوں سے کھانا شروع کیا پھر فرمایا میں قیامت کے دن سب کا سردار ہوں گا کیا تم جانتے ہو کہ یہ سب کس وجہ سے ہوگا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اولین وآخرین کو ایک ایسے ہموار میدان میں جمع فرمائیں گے کہ وہ سب آواز دینے والے کی آواز سنیں گے اور ہر آدمی کی نگاہ (یا اللہ کی نظر) سب کے پار جائے گی اور سورج قریب ہو جائے گا اور لوگوں کو نا قابل برداشت گھبراہٹ اور پریشانی کا سامنا ہوگا اس وقت بعض لوگ دوسرے لوگوں سے کہیں گے کیا تم نہیں دیکھتے کہ تمہارا کیا حال ہے اور کیا نہیں سوچتے کہ تم کس قسم کی پریشانیوں میں مبتلا ہو چکے ہو آؤ ایسے آدمی کی تلاش کریں جو اللہ کی بارگاہ میں ہماری شفاعت کرے پھر بعض لوگ ایک دوسرے سے مشورہ کرکے کہیں گے کہ چلو حضرت آدم علیہ السلام کے پاس چلو پھر لوگ حضرت آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور ان سے عرض کریں گے کہ اے آدم علیہ السلام آپ تمام انسانوں کے باپ ہیں اللہ نے آپ کو اپنے دست قدرت سے پیدا کیا ہے اور آپ میں اپنی روح پھونکی ہے اور تمام فرشتوں کو آپ کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا آپ اللہ کے ہاں ہماری شفاعت فرمائیں کیا آپ نہیں دیکھ رہے کہ ہم کن پریشانیوں میں مبتلا ہیں اور کیا آپ ہماری تکلیفوں کا مشاہدہ نہیں کر رہے؟ حضرت آدم فرمائیں گے کہ آج میرا رب اس قدر جلال میں ہے کہ کبھی اس سے پہلے جلال میں نہیں آیا اور بات دراصل یہ ہے کہ اللہ نے مجھے درخت کے قریب جانے سے روکا تھا اور میں نے اس کی نافرمانی کی آج تو میں بھی اپنی فکر میں مبتلا ہوں تم میرے علاوہ کسی اور کے پاس جاؤ لوگ حضرت نوح کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے کہ آپ زمین پر سب سے پہلے رسول ہیں آپ کا نام اللہ نے شکر گزار بندہ رکھا ہے آج اللہ کے ہاں ہماری شفاعت کر دیجئے کیا آپ نہیں جانتے کہ ہم کس حال میں ہیں کیا آپ نہیں جانتے کہ ہماری تکلیف کس حد تک پہنچ گئی ہے حضرت نوح فرمائیں گے کہ آج میرا رب اس قدر غضبناک ہے کہ نہ اس سے پہلے انتا غضبناک ہوا اور نہ اس کے بعد اتنا غضبناک ہوگا میں نے اپنی قوم کے لئے بد دعا کی تھی جس کی وجہ سے وہ تباہ ہوگئی آج تو میں بھی اپنی فکر میں مبتلا ہوں تم ابراہیم کے پاس جاؤ لوگ ابراہیم کے پاس جا کر عرض کریں گے آپ اللہ کے نبی ہیں اور ساری زمین والوں میں سے اللہ کے خلیل ہیں ہماری اللہ کے ہاں شفاعت فرمائیں کیا آپ نہیں جانتے کہ ہم کس حال میں ہیں اور کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ہماری تکلیف کس حد تک پہنچ چکی ہے حضرت ابراہیم فرمائیں گے کہ آج میرا پروردگار اتنا غضبناک ہے نہ اس سے پہلے اتنا غضبناک ہوا اور نہ اس کے بعد اتنا غضبناک ہوگا حضرت ابراہیم اپنے جھوٹ بولنے کو یاد کر کے فرمائیں گے کہ آج تو میں بھی اپنی فکر میں مبتلا ہوں تم میرے علاوہ کسی اور کے پاس جاؤ، موسیٰ کے پاس جاؤ لوگ موسیٰ کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو رسالت اور ہم کلامی دونوں سے نوازا ہے آپ اللہ کے ہاں ہماری شفاعت فرمائیں کیا آپ نہیں دیکھ رہے کہ ہم کس حال میں ہیں اور ہمیں کتنی تکلیفیں پہنچ رہی ہیں پھر ان سے حضرت موسیٰ فرمائیں گے کہ آج میرا رب اتنا غضبناک ہے کہ اتنا غضبناک نہ اس سے پہلے کبھی ہوا اور نہ اس کے بعد کبھی ہوگا اور میں نے بغیر حکم کے ایک آدمی کو قتل کردیا تھا آج تو میں بھی اپنی فکر میں مبتلا ہوں تم عیسیٰ کے پاس جاؤ، لوگ عیسیٰ کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے کہ اے عیسیٰ آپ اللہ کے رسول ہیں آپ نے گہوارے میں بات کی آپ کلمة اللہ ہیں اور روح اللہ ہیں آج اللہ کے ہاں ہماری شفاعت فرمائیں کیا آپ نہیں جانتے کہ ہم کس حال میں ہیں کیا آپ نہیں جانتے کہ ہمیں کتنی تکلیفیں پہنچ رہی ہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے کہ آج میرا رب اتنا غضبناک ہے، اتنا غضبناک نہ اس سے پہلے کبھی ہو اور نہ اس کے بعد کبھی ہوگا حضرت عیسیٰ نے اپنے قصور کا ذکر نہیں فرمایا اور فرمائیں گے کہ آج تو میں بھی اپنی فکر میں مبتلا ہوں تم میرے علاوہ کسی اور کے پاس جاؤ حضرت عیسیٰ فرمائیں گے کہ جاؤ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاؤ، لوگ میرے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور خاتم الانبیاء ہیں اللہ نے آپ کے اگلے پچھلے سارے قصور معاف فرما دئیے ہیں اپنے پروردگار کے ہاں ہماری شفاعت فرمائیں کیا آپ نہیں جانتے کہ ہم کس حال میں ہیں کیا آپ ہیں جانتے کہ ہماری تکلیف کس حد تک پہنچ گئی ہے پھر میں چلوں گا عرش کے نیچے آؤں گا پھر سجدہ میں پڑ جاؤں گا پھر اللہ میرے سینہ کو کھول دے گا اور مجھے حمد وثناء کے ایسے کلمات القاء فرمائے گا جو مجھے پہلے القاء نہیں کئے گئے پھر کہا جائے گا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنا سر اٹھائیے مانگئے دیا جائے گا شفاعت کریں آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی میں اپنا سر اٹھاؤں گا پھر عرض کروں گا اے میرے پروردگار میری امت میری امت پھر کہا جائے گا کہ اے محمد اپنی امت میں سے جن کا حساب نہیں لیا گیا انہیں جنت کے دائیں دروازوں سے داخل کردو اور یہ لوگ اس کے علاوہ دوسرے دروزاوں سے بھی داخل ہو سکتے ہیں اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ وقدرت میں محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے کہ جنت کے دروازوں کے کواڑوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا فاصلہ مکہ اور ہجر کے درمیان یا مکہ اور بصرٰی کے درمیان ہے۔
Abu Huraira reported: Meat was one day brought to the Messenger of Allah (may peace be upon him) and a foreleg was offered to him, a part which he liked. He sliced with his teeth a piece out of it and said: I shall be the leader of mankind on the Day of Resurrection. Do you know why? Allah would gather in one plain the earlier and the later (of the human race) on the Day of Resurrection. Then the voice of the proclaimer would be heard by all of them and the eyesight would penetrate through all of them and the sun would come near. People would then experience a degree of anguish, anxiety and agony which they shall not be able to bear and they shall not be able to stand. Some people would say to the others: Don you see in which trouble you are? Don't you see what (misfortune) has overtaken you? Why don't you find one who should intercede for you with your Lord? Some would say to the others: Go to Adam. And they would go to Adam and say: O Adam, thou art the father of mankind. Allah created thee by His own Hand and breathed in thee of His spirit and ordered the angels to prostrate before thee. Intercede for us with thy Lord Don't you see in what (trouble) we are? Don't you see what (misfortune) has overtaken us? Adam would say: Verily, my Lord is angry, to an extent to which He had never been angry before nor would He be angry afterward. Verily, He forbade me (to go near) that tree and I disobeyed Him. I am concerned with my own self. Go to someone else; go to Noah. They would come to Noah and would say: O Noah, thou art the first of the Messengers (sent) on the earth (after Adam), and Allah named thee as a" Grateful Servant," intercede for us with thy Lord. Don't you see in what (trouble) we are? Don't you see what (misfortune) has overtaken us? He would say: Verily, my Lord is angry today as He had never been angry before, and would never be angry afterwards. There had emanated a curse from me with which I cursed my people. I am concerned with only myself, I am concerned only with myself; you better go to Ibrahim (peace be upon him). They would go to Ibrahim and say: Thou art the apostle of Allah and His Friend amongst the inhabitants of the earth; intercede for us with thy Lord. Don't you see in which (trouble) we are? Don't you see what (misfortune) has overtaken us? Ibrahim would say to them: Verily, my Lord is today angry as He had never been angry before and would never be angry afterwards. and (Ibrahim) would mention his lies (and then say): I am concerned only with myself, I am concerned only with myself. You better go to someone else: go to Moses. They would come to Moses (peace be upon him) and say: O Moses, thou art Allah's messenger, Allah blessed thee with His messengership and His conversation amongst people. Intercede for us with thy Lord. Don't you see in what (trouble) we are? Don't you see what (misfortune) has overtaken us? Moses (peace be upon him) would say to them: Verily. my Lord is angry as He had never been angry before and would never be angry afterwards. I, in fact, killed a person whom I had not been ordered to kill. I am concerned with myself, I am concerned with myself. You better go to Jesus (peace be upon him). They would come to Jesus and would say: O Jesus, thou art the messenger of Allah and thou conversed with people in the cradle, (thou art) His Word which I-Ie sent down upon Mary. and (thou art) the Spirit from Him; so intercede for us with thy Lord. Don't you see (the trouble) in which we are? Don't you see (the misfortune) that has overtaken us? Jesus (peace be upon him) would say: Verily, my Lord is angry today as He had never been angry before or would ever be angry afterwards. He mentioned no sin of his. (He simply said: ) I am concerned with myself, I am concerned with myself; you go to someone else: better go to Muhammad (may peace be upon him).
They would come to me and say: O Mahammad, thou art the messenger of Allah and the last of the apostles. Allah has pardoned thee all thy previous and later sins. Intercede for us with thy Lord; don't you see in which (trouble) we are? Don't you see what (misfortune) has overtaken us? I shall then set off and come below the Throne and fall down prostrate before my Lord; then Allah would reveal to me and inspire me with some of His Praises and Glorifications which He had not revealed to anyone before me. He would then say: Muhammad, raise thy head; ask and it would be granted; intercede and intercession would be accepted I would then raise my head and say: O my Lord, my people, my people. It would be said: O Muhammad, bring in by the right gate of Paradise those of your people who would have no account to render. They would share with the people some other door besides this door. The Holy Prophet then said: By Him in Whose Hand is the life of Muhammad, verify the distance between two door leaves of the Paradise is as great as between Mecca and Hajar, or as between Mecca and Busra.