صحیح مسلم ۔ جلد اول ۔ ایمان کا بیان ۔ حدیث 403

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف وحی کے آغاز کے بیان میں

راوی: ابوطاہر , احمد بن عمرو بن عبداللہ بن عمرو بن سرح , ابن وہب , یونس , ابن شہاب , عروہ بن زبیر , عائشہ

حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَرْحٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا قَالَتْ کَانَ أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّادِقَةَ فِي النَّوْمِ فَکَانَ لَا يَرَی رُؤْيَا إِلَّا جَائَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَلَائُ فَکَانَ يَخْلُو بِغَارِ حِرَائٍ يَتَحَنَّثُ فِيهِ وَهُوَ التَّعَبُّدُ اللَّيَالِيَ أُوْلَاتِ الْعَدَدِ قَبْلَ أَنْ يَرْجِعَ إِلَی أَهْلِهِ وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِکَ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَی خَدِيجَةَ فَيَتَزَوَّدُ لِمِثْلِهَا حَتَّی فَجِئَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَائٍ فَجَائَهُ الْمَلَکُ فَقَالَ اقْرَأْ قَالَ مَا أَنَا بِقَارِئٍ قَالَ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّی بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ قَالَ قُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ قَالَ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّی بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ أَقْرَأْ فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ حَتَّی بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ فَرَجَعَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرْجُفُ بَوَادِرُهُ حَتَّی دَخَلَ عَلَی خَدِيجَةَ فَقَالَ زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي فَزَمَّلُوهُ حَتَّی ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ ثُمَّ قَالَ لِخَدِيجَةَ أَيْ خَدِيجَةُ مَا لِي وَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ قَالَ لَقَدْ خَشِيتُ عَلَی نَفْسِي قَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ کَلَّا أَبْشِرْ فَوَاللَّهِ لَا يُخْزِيکَ اللَّهُ أَبَدًا وَاللَّهِ إِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَصْدُقُ الْحَدِيثَ وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُومَ وَتَقْرِي الضَّيْفَ وَتُعِينُ عَلَی نَوَائِبِ الْحَقِّ فَانْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّی أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّی وَهُوَ ابْنُ عَمِّ خَدِيجَةَ أَخِي أَبِيهَا وَکَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَکَانَ يَکْتُبُ الْکِتَابَ الْعَرَبِيَّ وَيَکْتُبُ مِنْ الْإِنْجِيلِ بِالْعَرَبِيَّةِ مَا شَائَ اللَّهُ أَنْ يَکْتُبَ وَکَانَ شَيْخًا کَبِيرًا قَدْ عَمِيَ فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ أَيْ عَمِّ اسْمَعْ مِنْ ابْنِ أَخِيکَ قَالَ وَرَقَةُ بْنُ نَوْفَلٍ يَا ابْنَ أَخِي مَاذَا تَرَی فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَبَرَ مَا رَآهُ فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي أُنْزِلَ عَلَی مُوسَی صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا يَا لَيْتَنِي أَکُونُ حَيًّا حِينَ يُخْرِجُکَ قَوْمُکَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَ مُخْرِجِيَّ هُمْ قَالَ وَرَقَةُ نَعَمْ لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمَا جِئْتَ بِهِ إِلَّا عُودِيَ وَإِنْ يُدْرِکْنِي يَوْمُکَ أَنْصُرْکَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا

ابوطاہر، احمد بن عمرو بن عبداللہ بن عمرو بن سرح، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کا آغاز اس طرح سے ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خواب سچے ہونے لگے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو بھی خواب دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح ظاہر ہوتا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تنہائی پسند ہونے لگی، غار حرا میں تنہا تشریف لے جاتے کئی کئی رات گھر میں تشریف نہ لاتے اور عبادت کرتے رہتے (دین ابراہیمی کے مطابق) اپنے ساتھ کھانے پینے کا سامان رکھتے پھر ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس واپس تشریف لاتے، حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پھر اسی طرح کھانے پینے کا سامان پکا دیتیں یہاں تک کہ اچانک غار حرا میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی اتری فرشتہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آکر کہا پڑھئے! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتہ نے مجھے پکڑ کر اتنا دبایا کہ میں تھک گیا پھر مجھے چھوڑ کر فرمایا پڑھیے! میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتہ نے دوبارہ مجھے پکڑ کر اتنا دبایا کہ میں تھک گیا اس کے بعد مجھے چھوڑ دیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا فرشتہ نے پھر تیسری دفعہ مجھے پکڑ کر اتنا دبایا کہ میں تھک گیا پھر مجھے چھوڑ کر کہا (اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ) پڑھئے اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا انسان کو گوشت کے لوتھڑے سے، پڑھ! تیرا پروردگار بڑی عزت والا ہے جس نے قلم سے سکھایا اور انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس گھر تشریف لائے تو وحی کے جلال سے آپ کے شانہ مبارک اور گردن کے درمیان کا گوشت کانپ رہا تھا، حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تشریف لا کر فرمایا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو مجھے کپڑا اوڑھا دو! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کپڑا اوڑھا دیا گیا یہاں تک کہ جب گھبراہٹ ختم ہوگئی تو فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے، حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرمانے لگیں کہ ہرگز نہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوش رہیں، اللہ کی قسم اللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کبھی رسو انہیں کرے گا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو صلہ رحمی کرتے ہیں، سچ بولتے ہیں، یتیموں مسکینوں اور کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور ناداروں کو دینے کی خاطر کماتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور پریشان لوگوں کی پریشانی میں لوگوں کے کام آتے ہیں، اس کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزی کے پاس لے گئیں، ورقہ دور جاہلیت میں اسلام سے قبل نصرانی ہوگئے تھے، وہ عربی لکھنا جانتے تھے اور انجیل کو عربی زبان میں جتنا اللہ کو منظور ہوتا لکھتے تھے یہ بہت بوڑھے اور نابینا ہوگئے تھے، حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ورقہ سے کہا اے چچا! (ان کی بزرگی کی وجہ سے اس طرح خطاب کیا اصل میں وہ چچا زاد بھائی تھے) اپنے بھتیجے کی بات سنئے ورقہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کرکے کہا اے بھتیجے تم کیا دیکھتے ہو؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو کچھ دیکھا تھا اس سے آگاہ کیا، ورقہ کہنے لگا یہ تو وہ ناموس ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا تھا کاش میں اس وقت جوان ہوتا اور اس وقت تک زندہ رہتا جب تیری قوم تجھے نکالے گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا وہ مجھے نکال دیں گے ورقہ نے کہا ہاں جو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا نبی بن کر دنیا میں آیا لوگ اس کے دشمن ہو گئے اگر میں اس وقت تک زندہ رہا تو میں تمہاری بھرپور مدد کروں گا۔

A'isha, the wife of the Apostle of Allah (may peace be upon him), reported: The first (form) with which was started the revelation to the Messenger of Allah was the true vision in sleep. And he did not see any vision but it came like the bright gleam of dawn. Thenceforth solitude became dear to him and he used to seclude himself in the cave of Hira', where he would engage in tahannuth (and that is a worship for a number of nights) before returning to his family and getting provisions again for this purpose. He would then return to Khadija and take provisions for a like period, till Truth came upon him while he was in the cave of Hira'. There came to him the angel and said: Recite, to which he replied: I am not lettered. He took hold of me [the Apostle said] and pressed me, till I was hard pressed; thereafter he let me off and said: Recite. I said: I am not lettered. He then again took hold of me and pressed me for the second time till I was hard pressed and then let me off and said: Recite, to which I replied: I am not lettered. He took hold of me and pressed me for the third time, till I was hard pressed and then let me go and said: Recite in the name of your Lord Who created, created man from a clot of blood. Recite. And your most bountiful Lord is He Who taught the use of pen, taught man what he knew not (al-Qur'an, xcvi. 1-4). Then the Prophet returned therewith, his heart was trembling, and he went to Khadija and said: Wrap me up, wrap me up! So they wrapped him till the fear had left him. He then said to Khadija: O Khadija! what has happened to me? and he informed her of the happening, saying: I fear for myself. She replied: It can't be. Be happy. I swear by Allah that He shall never humiliate you. By Allah, you join ties of relationship, you speak the truth, you bear people's burden, you help the destitute, you entertain guests, and you help against the vicissitudes which affect people. Khadija then took him to Waraqa b. Naufal b. Asad b. 'Abd al-'Uzza, and he was the son of Khadija's uncle, i. e., the brother of her father. And he was the man who had embraced Christianity in the Days of Ignorance (i. e. before Islam) and he used to write books in Arabic and, therefore, wrote Injil in Arabic as God willed that he should write. He was very old and had become blind Khadija said to him: O uncle! listen to the son of your brother. Waraqa b. Naufal said: O my nephew! what did you see? The Messenger of Allah (may peace be upon him), then, informed him what he had seen, and Waraqa said to him: It is namus that God sent down to Musa. Would that I were then (during your prophetic career) a young man. Would that I might be alive when your people would expel you! The Messenger of Allah (may peace be upon him) said: Will they drive me out? Waraqa said: Yes. Never came a man with a like of what you have brought but met hostilities. If I see your day I shall help you wholeheartedly.

یہ حدیث شیئر کریں