ثقات سے روایت کرنے کے وجوب اور جھوٹے لوگوں کی روایات کے ترک میں
راوی:
وَاعْلَمْ وَفَّقَکَ اللَّهُ تَعَالَی أَنَّ الْوَاجِبَ عَلَی کُلِّ أَحَدٍ عَرَفَ التَّمْيِيزَ بَيْنَ صَحِيحِ الرِّوَايَاتِ وَسَقِيمِهَا وَثِقَاتِ النَّاقِلِينَ لَهَا مِنْ الْمُتَّهَمِينَ أَنْ لَا يَرْوِيَ مِنْهَا إِلَّا مَا عَرَفَ صِحَّةَ مَخَارِجِهِ وَالسِّتَارَةَ فِي نَاقِلِيهِ وَأَنْ يَتَّقِيَ مِنْهَا مَا کَانَ مِنْهَا عَنْ أَهْلِ التُّهَمِ وَالْمُعَانِدِينَ مِنْ أَهْلِ الْبِدَعِ وَالدَّلِيلُ عَلَی أَنَّ الَّذِي قُلْنَا مِنْ هَذَا هُوَ اللَّازِمُ دُونَ مَا خَالَفَهُ قَوْلُ اللَّهِ جَلَّ ذِکْرُهُ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَائَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَی مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ وَقَالَ جَلَّ ثَنَاؤُهُ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنْ الشُّهَدَائِ وَقَالَ عَزَّ وَجَلَّ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْکُمْ فَدَلَّ بِمَا ذَکَرْنَا مِنْ هَذِهِ الْآيِ أَنَّ خَبَرَ الْفَاسِقِ سَاقِطٌ غَيْرُ مَقْبُولٍ وَأَنَّ شَهَادَةَ غَيْرِ الْعَدْلِ مَرْدُودَةٌ وَالْخَبَرُ وَإِنْ فَارَقَ مَعْنَاهُ مَعْنَی الشَّهَادَةِ فِي بَعْضِ الْوُجُوهِ فَقَدْ يَجْتَمِعَانِ فِي أَعْظَمِ مَعَانِيهِمَا إِذْ کَانَ خَبَرُ الْفَاسِقِ غَيْرَ مَقْبُولٍ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ کَمَا أَنَّ شَهَادَتَهُ مَرْدُودَةٌ عِنْدَ جَمِيعِهِمْ وَدَلَّتْ السُّنَّةُ عَلَی نَفْيِ رِوَايَةِ الْمُنْکَرِ مِنْ الْأَخْبَارِ کَنَحْوِ دَلَالَةِ الْقُرْآنِ عَلَی نَفْيِ خَبَرِ الْفَاسِقِ وَهُوَ الْأَثَرُ الْمَشْهُورُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ حَدَّثَ عَنِّي بِحَدِيثٍ يُرَی أَنَّهُ کَذِبٌ فَهُوَ أَحَدُ الْکَاذِبِينَ
یاد رکھو یاد رکھو ! اللہ آپ کو توفیق دے ہر ایک محدث پر جو صحیح اور غیر صحیح احادیث میں پہچان رکھتا ہے ثقہ اور غیر ثقہ راویوں کی معرفت رکھتا ہو واجب ہے کہ وہ صرف ایسی روایات ذکر کرے جن کی اسناد صحیح ہوں اور ان کے راویوں میں سے کوئی راوی بھی جھوٹ سے متہم بدعتی اور مخالف سنت نہ ہو ان کا عیب فاش نہ ہوا ہو ہمارے اس قول کی دلیل ایسی لازم ہے کہ اس کا مخالف نہیں وہ اللہ تبارک وتعالی کا قول مؤمنو اگر کوئی بد کر دار تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیا کرو مبادا کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچادو پھر تم کو اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے نیز ارشاد ربانی ہے جو تمہارے پسندیدہ گواہ ہوں نیز ارشاد باری ہے ان لوگوں کو گواہ بناؤ جو عادل ہوں یہ آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ فاسق کی خبر غیر مقبول ہے اور جو شخص عادل نہ ہو اس کی گواہی مردود ہے حدیث بیان کرنے اور گواہی دینے میں اگرچہ کچھ فرق ہے مگر دونوں ایک بڑے معنی میں مشترک ہیں کیونکہ فاسق کی روایت اسی طرح محدثین کے نزدیک مردود ہے جس طرح عام لوگوں کے نزدیک اس کی گواہی غیر مقبول ہے اور حدیث دلالت کرتی ہے اس بات پر کہ منکر کا روایات بیان کرنا درست نہیں جس طرح قرآن مجید سے خبر فاسق کا غیر معتبر ہونا ثابت ہے اور وہ حدیث وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شہرت کے ساتھ منقول ہے کہ جس نے علم کے باوجود جھوٹی حدیث کو میری طرف منسوب کیا وہ جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا ہے ۔