جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوئے رہتے یا کوئی تکلیف وغیرہ ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی نماز (دن کو پڑھتے)
راوی: محمد بن مثنی , محمد بن ابی عدی , سعید بن قتادہ , زرارہ ، سعد بن ہشام بن عامر
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی الْعَنَزِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ زُرَارَةَ أَنَّ سَعْدَ بْنَ هِشَامِ بْنِ عَامِرٍ أَرَادَ أَنْ يَغْزُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَقَدِمَ الْمَدِينَةَ فَأَرَادَ أَنْ يَبِيعَ عَقَارًا لَهُ بِهَا فَيَجْعَلَهُ فِي السِّلَاحِ وَالْکُرَاعِ وَيُجَاهِدَ الرُّومَ حَتَّی يَمُوتَ فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ لَقِيَ أُنَاسًا مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ فَنَهَوْهُ عَنْ ذَلِکَ وَأَخْبَرُوهُ أَنَّ رَهْطًا سِتَّةً أَرَادُوا ذَلِکَ فِي حَيَاةِ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَهَاهُمْ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ أَلَيْسَ لَکُمْ فِيَّ أُسْوَةٌ فَلَمَّا حَدَّثُوهُ بِذَلِکَ رَاجَعَ امْرَأَتَهُ وَقَدْ کَانَ طَلَّقَهَا وَأَشْهَدَ عَلَی رَجْعَتِهَا فَأَتَی ابْنَ عَبَّاسٍ فَسَأَلَهُ عَنْ وِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَلَا أَدُلُّکَ عَلَی أَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ بِوِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ قَالَ عَائِشَةُ فَأْتِهَا فَاسْأَلْهَا ثُمَّ ائْتِنِي فَأَخْبِرْنِي بِرَدِّهَا عَلَيْکَ فَانْطَلَقْتُ إِلَيْهَا فَأَتَيْتُ عَلَی حَکِيمِ بْنِ أَفْلَحَ فَاسْتَلْحَقْتُهُ إِلَيْهَا فَقَالَ مَا أَنَا بِقَارِبِهَا لِأَنِّي نَهَيْتُهَا أَنْ تَقُولَ فِي هَاتَيْنِ الشِّيعَتَيْنِ شَيْئًا فَأَبَتْ فِيهِمَا إِلَّا مُضِيًّا قَالَ فَأَقْسَمْتُ عَلَيْهِ فَجَائَ فَانْطَلَقْنَا إِلَی عَائِشَةَ فَاسْتَأْذَنَّا عَلَيْهَا فَأَذِنَتْ لَنَا فَدَخَلْنَا عَلَيْهَا فَقَالَتْ أَحَکِيمٌ فَعَرَفَتْهُ فَقَالَ نَعَمْ فَقَالَتْ مَنْ مَعَکَ قَالَ سَعْدُ بْنُ هِشَامٍ قَالَتْ مَنْ هِشَامٌ قَالَ ابْنُ عَامِرٍ فَتَرَحَّمَتْ عَلَيْهِ وَقَالَتْ خَيْرًا قَالَ قَتَادَةُ وَکَانَ أُصِيبَ يَوْمَ أُحُدٍ فَقُلْتُ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ أَنْبِئِينِي عَنْ خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ أَلَسْتَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ قُلْتُ بَلَی قَالَتْ فَإِنَّ خُلُقَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ الْقُرْآنَ قَالَ فَهَمَمْتُ أَنْ أَقُومَ وَلَا أَسْأَلَ أَحَدًا عَنْ شَيْئٍ حَتَّی أَمُوتَ ثُمَّ بَدَا لِي فَقُلْتُ أَنْبِئِينِي عَنْ قِيَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ أَلَسْتَ تَقْرَأُ يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ قُلْتُ بَلَی قَالَتْ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ افْتَرَضَ قِيَامَ اللَّيْلِ فِي أَوَّلِ هَذِهِ السُّورَةِ فَقَامَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ حَوْلًا وَأَمْسَکَ اللَّهُ خَاتِمَتَهَا اثْنَيْ عَشَرَ شَهْرًا فِي السَّمَائِ حَتَّی أَنْزَلَ اللَّهُ فِي آخِرِ هَذِهِ السُّورَةِ التَّخْفِيفَ فَصَارَ قِيَامُ اللَّيْلِ تَطَوُّعًا بَعْدَ فَرِيضَةٍ قَالَ قُلْتُ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ أَنْبِئِينِي عَنْ وِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ کُنَّا نُعِدُّ لَهُ سِوَاکَهُ وَطَهُورَهُ فَيَبْعَثُهُ اللَّهُ مَا شَائَ أَنْ يَبْعَثَهُ مِنْ اللَّيْلِ فَيَتَسَوَّکُ وَيَتَوَضَّأُ وَيُصَلِّي تِسْعَ رَکَعَاتٍ لَا يَجْلِسُ فِيهَا إِلَّا فِي الثَّامِنَةِ فَيَذْکُرُ اللَّهَ وَيَحْمَدُهُ وَيَدْعُوهُ ثُمَّ يَنْهَضُ وَلَا يُسَلِّمُ ثُمَّ يَقُومُ فَيُصَلِّ التَّاسِعَةَ ثُمَّ يَقْعُدُ فَيَذْکُرُ اللَّهَ وَيَحْمَدُهُ وَيَدْعُوهُ ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمًا يُسْمِعُنَا ثُمَّ يُصَلِّي رَکْعَتَيْنِ بَعْدَ مَا يُسَلِّمُ وَهُوَ قَاعِدٌ وَتِلْکَ إِحْدَی عَشْرَةَ رَکْعَةً يَا بُنَيَّ فَلَمَّا سَنَّ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخَذَهُ اللَّحْمُ أَوْتَرَ بِسَبْعٍ وَصَنَعَ فِي الرَّکْعَتَيْنِ مِثْلَ صَنِيعِهِ الْأَوَّلِ فَتِلْکَ تِسْعٌ يَا بُنَيَّ وَکَانَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّی صَلَاةً أَحَبَّ أَنْ يُدَاوِمَ عَلَيْهَا وَکَانَ إِذَا غَلَبَهُ نَوْمٌ أَوْ وَجَعٌ عَنْ قِيَامِ اللَّيْلِ صَلَّی مِنْ النَّهَارِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَکْعَةً وَلَا أَعْلَمُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ الْقُرْآنَ کُلَّهُ فِي لَيْلَةٍ وَلَا صَلَّی لَيْلَةً إِلَی الصُّبْحِ وَلَا صَامَ شَهْرًا کَامِلًا غَيْرَ رَمَضَانَ قَالَ فَانْطَلَقْتُ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ فَحَدَّثْتُهُ بِحَدِيثِهَا فَقَالَ صَدَقَتْ لَوْ کُنْتُ أَقْرَبُهَا أَوْ أَدْخُلُ عَلَيْهَا لَأَتَيْتُهَا حَتَّی تُشَافِهَنِي بِهِ قَالَ قُلْتُ لَوْ عَلِمْتُ أَنَّکَ لَا تَدْخُلُ عَلَيْهَا مَا حَدَّثْتُکَ حَدِيثَهَا
محمد بن مثنی، محمد بن ابی عدی، سعید بن قتادہ، زرارہ سے روایت ہے کہ حضرت سعد بن ہشام بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کا ارادہ کیا تو وہ مدینہ منورہ آگئے اور اپنی زمین وغیرہ بیچنے کا ارادہ کیا تاکہ اس کے ذریعہ سے اسلحہ اور گھوڑے وغیرہ خرید سکیں اور مرتے دم تک روم والوں سے جہاد کریں تو جب وہ مدینہ منورہ میں آگئے اور مدینہ والوں میں سے کچھ لوگوں سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے حضرت سعد کو اس طرح کرنے سے منع کیا اور ان کو بتایا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاة طیبہ میں چھ آدمیوں نے بھی اسی طرح کا ارادہ کیا تھا تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی ایسا کرنے سے روک دیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تمہارے لئے میری زندگی میں نمونہ نہیں ہے؟ جب مدینہ والوں نے حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے اپنی اس بیوی سے رجوع کیا جس کو وہ طلاق دے چکے تھے اور اپنے اس رجوع کرنے پر لوگوں کو گواہ بنالیا پھر وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی طرف آئے تو ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وتر کے بارے میں پوچھا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ کیا میں تجھے وہ آدمی نہ بتاؤں جو زمین والوں میں سے سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وتر کے بارے میں جانتا ہے! حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا وہ کون ہے؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا : حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، تو ان کی طرف جا اور ان سے پوچھ پھر اس کے بعد میرے پاس آ اور وہ جو جواب دیں مجھے بھی اس سے باخبر کرنا، حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں پھر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف چلا، حکیم بن افلح کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف لے کر چلو، وہ کہنے لگے کہ میں تجھے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف لے کر نہیں جا سکتا کیونکہ میں نے انہیں اس بات سے روکا تھا کہ وہ ان دو گروہوں (علی اور معاویہ) کے درمیان کچھ نہ کہیں تو انہوں نے نہ مانا اور چلی گئیں، حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ان پر قسم ڈالی تو وہ ہمارے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف آنے کے لئے چل پڑے اور ہم نے اجازت طلب کی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ہمیں اجازت دی اور ہم ان کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حکیم بن افلح کو پہنچان لیا اور فرمایا : کیا یہ حکیم ہیں؟ حکیم کہنے لگے کہ جی ہاں! حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا : تیرے ساتھ کون ہے؟ حکیم نے کہا کہ سعد بن ہشام ہیں، آپ نے فرمایا ہشام کون ہے؟ حکیم نے کہا کہ عامر کا بیٹا، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عامر پر رحم کی دعا فرمائی اور اچھے کلمات کہے، حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ عامر غزوہ احد میں شہید کر دئے گئے تھے، تو میں نے عرض کیا اے ام المومنین مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں بتائیے! حضرت عائشہ نے فرمایا کہ کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ میں نے عرض کیا ہاں، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اخلاق قرآن ہی تو تھا، حضرت سعد کہتے ہیں کہ میں نے ارادہ کیا کہ میں اٹھ کھڑا ہو جاؤں اور مرتے دم تک کسی سے کچھ نہ پوچھوں پھر مجھے خیال آیا تو میں نے عرض کیا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قیام کے بارے میں بتائیے، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کیا تو نے (یَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ) نہیں پڑھی؟ میں نے عرض کیا جی ہاں! حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی ابتداء ہی میں رات کے قیام کو فرض کردیا تھا تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے ایک سال رات کو قیام فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے آخری حصہ کو بارہ مہینوں تک آسمان میں روک دیا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے آخر میں تخفیف نازل فرمائی تو پھر رات کا قیام فرض ہونے کے بعد نفل ہوگیا، حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں نے عرض کیا کہ اے ام المومنین مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز وتر کے بارے میں بتائیے! تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے مسواک اور وضو کا پانی تیار رکھتے تھے تو اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رات کو جب چاہتا بیدار کر دیتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسواک فرماتے اور وضو فرماتے اور نو رکعات نماز پڑھتے ان رکعتوں میں نہ بیٹھتے سوائے آٹھویں رکعت کے بعد اور اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے اور اس کی حمد کرتے اور اس سے دعا مانگتے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھتے اور سلام نہ پھیر تے پھر کھڑے ہو کر نویں رکعت پڑھتے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھتے اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے اور اس کی حمد بیان فرماتے اور اس سے دعا مانگتے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سلام پھیرتے سلام پھیرنا ہمیں سنا دیتے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سلام پھیرنے کے بعد بیٹھے بیٹھے دو رکعات نماز پڑھتے تو یہ گیارہ رکعتیں ہوگئیں، اے میرے بیٹے! پھر جب اللہ کے نبی کی عمر مبارک زیادہ ہوگئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم مبارک پر گوشت آ گیا تو سات رکعتیں وتر کی پڑھنے لگے اور دو رکعتیں اسی طرح پڑھتے جس طرح کہ پہلے بیان کیا تو یہ نو رکعتیں ہوئیں اے میرے بیٹے! اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی کوئی نماز پڑھتے تو اس بات کو پسند فرماتے کہ اس پر دوام کیا جائے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نیند کا غلبہ ہوتا یا کوئی درد وغیرہ ہوتی کہ جس کی وجہ سے رات کو قیام نہ ہو سکتا ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دن کو بارہ رکعتیں پڑھتے اور مجھے نہیں معلوم کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ہی رات میں سارا قرآن مجید پڑھا ہو اور نہ ہی مجھے یہ معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پورا مہینہ روزے رکھے ہوں سوائے رمضان کے، حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی طرف گیا اور ان سے اس ساری حدیث کو بیان کیا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سچ فرمایا اور اگر میں ان کے پاس ہوتا یا ان کی خدمت میں حاضری دیتا تو میں یہ حدیث سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بالمشافہ (براہ راست) سنتا، راوی کہتے ہیں کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ ان کے پاس نہیں جاتے تو میں ان کی حدیث آپ کو بیان نہ کرتا۔
Sa'd b. Hisham b. 'Amir decided to participate in the expedition for the sake of Allah, so he came to Medina and he decided to dispose of his property there and buy arms and horses instead and fight against the Romans to the end of his life. When he came to Medina, he met the people of Medina. They dissuaded him to do such a thing, and informed him that a group of six men had decided to do so during the lifetime of the Apostle of Allah (may peace be upon him) and the Apostle of Allah (may peace be upon him) forbade them to do it, and said: Is there not for you a model pattern in me? And when they narrated this to him (Sa'd b. Hisham), he returned to his wife, though he had divorced her and made (people) witness to his reconciliation. He then came to Ibn 'Abbas and asked him about the Witr of the Messenger of Allah (may peace be upon him). Ibn 'Abbas said: Should I not lead you to one who knows best amongst the people of the world about the Witr of the Messenger of Allah (may peace be upon him)? He said: Who is it? He (Ibn 'Abbas) said: It is 'A'isha. So go to her and ask her (about Witr) and then come to me and inform me about her answer that she would give you. So I came to Hakim b. Aflah and requested him to take me to her. He said: I would not go to her, for I forbade her to speak anything (about the conflict) between the two groups, but she refused (to accept my advice) and went (to participate in that conflict). I (requested) him (Hakim) with an oath to lead me to her. So we went to 'A'isha and we begged permission to meet her. She granted us permission and we went in. She said: Are you Hakim? (She recognised him.) He replied: Yes. She said: Who is there with you? He said: He is Sa'd b. Hisham. She said: Which Hisham? He said: He is Hisham b. 'Amir. She blessed him ('Amir) with mercy from Allah and spoke good of him (Qatada said that he died as a martyr in Uhud). I said: Mother of the Faithful, tell me about the character of the Messenger of Allah (may peace be upon him). She said: Don't you read the Qur'an? I said: Yes. Upon this she said: The character of the Apostle of Allah (may peace be upon him) was the Qur'an. He said: I felt inclined to get up and not ask anything (further) till death. But then I changed my mind and said: Inform me about the observance (of the night prayer) of the Messenger of Allah (may peace be upon him). She said: Did you not recite:" O thou wrapped up"? He said: Yes. She said: Allah, the Exalted and the Glorious, made the observance of the night prayer at the beginning of this Surah obligatory.
So the Apostle of Allah (may peace be upon him) and his Companions around him observed this (night prayer) for one year. Allah held back the concluding portion of this Surah for twelve months in the Heaven till (at the end of this period) Allah revealed the concluding verses of this Surah which lightened (the burden of this prayer), and the night prayer became a supererogatory prayer after being an obligatory one. I said: Mother of the Faithful, inform me about the Witr of the Messenger of Allah (may peace be upon him). She said: I used to prepare a tooth stick for him and water for his ablution, and Allah would rouse him to the extent He wished during the night. He would use the tooth stick, and perform ablution, and would offer nine rak'ahs, and would not sit but in the eighth one and would remember Allah, and praise Him and supplicate Him, then he would get up without uttering the salutation and pray the ninth rak'ah. He would then sit, remember, praise Him and supplicate Him and then utter a salutation loud enough for us to hear. He would then pray two rak'ahs sitting after uttering the salutation, and that made eleven rak'ahs. O my son, but when the Apostle of Allah (may peace be upon him) grew old and put on flesh, he observed Witr of seven, doing in the two rak'ahs as he had done formerly, and that made nine. O my son, and when the Apostle of Allah (may peace be upon him) observed prayer, he liked to keep on observing it, and when sleep or pain overpowered him and made it impossible (for him) to observe prayer in the night, he prayed twelve rak'ahs daring the day. I am not aware of Allah's Prophet (may peace be upon him) having recited the whole Qur'an during one single night, or praying through the night till morning, or fasting a complete month, except Ramadan. He (the narrator) said: I then went to Ibn 'Abbas and narrated to him the hadith (transmitted from her), and he said: She says the truth. If I went to her and got into her presence, I would have listened to it orally from her. He said: If I were to know that you do not go to her. I would not have transmitted this hadith to you narrated by her.