قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ قرآن کریم ٹھہر ٹھہر کر پڑھو اور (اور دوسرا) قول وقرآنا فرقناہ لتقرائہ علی الناس علی مکث ترتیل سے پڑھنے کی دلیل ہے، شعروں کی طرح جلد جلد نہ پڑھا جائے، امام بخاری لفظ یفرق کی تفسیر تفصیل سے کی ہے، اور ابن عباس نے فرقناہ کی تفسیر فصلناہ سے کی ہے
راوی: قتیبہ بن سعید , جریر , موسیٰ ابن ابی عائشہ , سعید بن جبیر
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مُوسَی بْنِ أَبِي عَائِشَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فِي قَوْلِهِ لَا تُحَرِّکْ بِهِ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِهِ قَالَ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا نَزَلَ جِبْرِيلُ بِالْوَحْيِ وَکَانَ مِمَّا يُحَرِّکُ بِهِ لِسَانَهُ وَشَفَتَيْهِ فَيَشْتَدُّ عَلَيْهِ وَکَانَ يُعْرَفُ مِنْهُ فَأَنْزَلَ اللَّهُ الْآيَةَ الَّتِي فِي لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا تُحَرِّکْ بِهِ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِهِ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ فَإِنَّ عَلَيْنَا أَنْ نَجْمَعَهُ فِي صَدْرِکَ وَقُرْآنَهُ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ فَإِذَا أَنْزَلْنَاهُ فَاسْتَمِعْ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ قَالَ إِنَّ عَلَيْنَا أَنْ نُبَيِّنَهُ بِلِسَانِکَ قَالَ وَکَانَ إِذَا أَتَاهُ جِبْرِيلُ أَطْرَقَ فَإِذَا ذَهَبَ قَرَأَهُ کَمَا وَعَدَهُ اللَّهُ
قتیبہ بن سعید، جریر، موسیٰ ابن ابی عائشہ، سعید بن جبیر سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے قول (لَا تُحَرِّكْ بِه لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِه ) 75۔ القیامۃ : 16) (زبان کو جلدی نہ چلایا کرو) کی تفسیر میں یوں روایت ہے کہ جبرائیل جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وحی لاتے تو آپ اپنی زبان اور ہونٹ جلد ہلاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ بار گذرتا اور دوسرے لوگوں کو بھی اس کا علم ہوتا، اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (لَا تُحَرِّکْ بِهِ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِهِ) 75۔ القیامۃ : 16) یعنی جلدی کے مارے زبان مت ہلاؤ، تیرے سینہ میں محفوظ رکھنا اور پڑھانا ہماری ذمہ داری ہے، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے لفظ علینا جمعہ کی تفسیر جمعہ فی صدرک سے کی ہے یعنی تیرے سینہ میں اس کا محفوظ رکھنا ہماری ذمہ داری ہے، (فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ) 75۔ القیامۃ : 17) یعنی جب ہم اس کو پڑھائیں تو کان لگا کر سن، (ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ) 75۔ القیامۃ : 18)یعنی پھر اس کا تیری زبان سے بیان کرانا ہمارے ذمہ ہے، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں اس کے بعد جب جبرائیل وحی لاتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سر نیچا کرکے سنتے اور جب جبرائیل چلے جاتے تو آپ اللہ کے وعدے کے مطابق اسے پڑھ لیتے۔
Narrated Ibn Abbas:
Regarding His (Allah's) Statement:– 'Move not your tongue concerning (the Qur'an) to make haste therewith.' (75.16) And whenever Gabriel descended to Allah's Apostle with the Divine Inspiration, Allah's Apostle used to move his tongue and lips, and that used to be hard for him, and one could easily recognize that he was being inspired Divinely. So Allah revealed the Verse which occurs in the Surah starting with "I do swear by the Day of Resurrection.' (75.1) i.e. 'Move not your tongue concerning (the Qur'an) to make haste then with. It is for Us to collect it (in your mind) (O Muhammad) an give you the ability to recite it 'by heart.' (75.16-17) which means: It is for us to collect it (in your mind) and give you the ability to recite it by heart. And when We have recited it to you (O Muhammad) through Gabriel then follow you its recital. (75.18) means: 'When We reveal it (the Qur'an) to you, Listen to it.' for then: It is for Us to explain it and make it clear to you' (75.19) i.e. It is up to Us to explain it through your tongue. So, when Gabriel came to him, Allah's Apostle would listen to him attentively, and as soon as Gabriel left, he would recite the Revelations, as Allah had promised him.