صحیح بخاری ۔ جلد سوم ۔ توحید کا بیان ۔ حدیث 2448

اللہ کا قول کہ اللہ نے تم کو اور جو تم کرتے ہوپیدا کیا ہم نے ہر چیز کو اندازے سے پیدا کیا اور تصویر بنانے والوں سے کہا جائے گا کہ جو تم نے پیدا کیا ہے اس میں جان ڈالو، بیشک تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر عرش پر چڑھا رات کو دن سے ڈھانپتا ہے ، دونوں ایک دوسرے کے پیچھے دوڑ کر آتے ہیں اور آفتاب و ماہتاب اور ستارے پیدا کئے جو اس کے حکم کے تابع ہیں، سن لو کہ خلق و امر اسی کے لئے ہے، اللہ بابرکت ہے جو سارے جہاں کا رب ہے ، اور ابن عیینہ نے کہا کہ اللہ نے خلق اور امر کو جدا کر کے بیان کیا اور الا لہ الخلق والامر فرمایا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کا نام عمل عکھا۔ ابو ذر اور ابوہریرہ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے سوال کیا کہ کون سا عمل سب سے اچھا ہے ، آپ نے فرمایا کہ اللہ پر ایمان لانا اور اس کے راستہ میں جہاد کرنا اور اللہ تعالی نے فرمایا جزاء بما کانوا یعملون۔ (یہ ان کے اعمال کا بدلہ ہے) اور وفد عبدالقیس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ہم کو چند جامع احکام بتلائیے کہ اگر ہم اس پر عمل کریں تو جنت میں داخل ہوں، تو آپ نے ان کو ایمان اور شہادۃ اور نماز قائم کرنے اور زکوۃ دینے کا حکم دیا اور ان ساری باتوں کو عمل قرار دیا۔

راوی: عبداللہ بن عبد الوہاب , عبد الوہاب , ایوب , ابوقلابہ وقاسم , تمیمی , زہدم

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ وَالْقَاسِمِ التَّمِيمِيِّ عَنْ زَهْدَمٍ قَالَ کَانَ بَيْنَ هَذَا الْحَيِّ مِنْ جُرْمٍ وَبَيْنَ الْأَشْعَرِيِّينَ وُدٌّ وَإِخَائٌ فَکُنَّا عِنْدَ أَبِي مُوسَی الْأَشْعَرِيِّ فَقُرِّبَ إِلَيْهِ الطَّعَامُ فِيهِ لَحْمُ دَجَاجٍ وَعِنْدَهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَيْمِ اللَّهِ کَأَنَّهُ مِنْ الْمَوَالِي فَدَعَاهُ إِلَيْهِ فَقَالَ إِنِّي رَأَيْتُهُ يَأْکُلُ شَيْئًا فَقَذِرْتُهُ فَحَلَفْتُ لَا آکُلُهُ فَقَالَ هَلُمَّ فَلْأُحَدِّثْکَ عَنْ ذَاکَ إِنِّي أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَفَرٍ مِنْ الْأَشْعَرِيِّينَ نَسْتَحْمِلُهُ قَالَ وَاللَّهِ لَا أَحْمِلُکُمْ وَمَا عِنْدِي مَا أَحْمِلُکُمْ فَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَهْبِ إِبِلٍ فَسَأَلَ عَنَّا فَقَالَ أَيْنَ النَّفَرُ الْأَشْعَرِيُّونَ فَأَمَرَ لَنَا بِخَمْسِ ذَوْدٍ غُرِّ الذُّرَی ثُمَّ انْطَلَقْنَا قُلْنَا مَا صَنَعْنَا حَلَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا يَحْمِلَنَا وَمَا عِنْدَهُ مَا يَحْمِلُنَا ثُمَّ حَمَلَنَا تَغَفَّلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمِينَهُ وَاللَّهِ لَا نُفْلِحُ أَبَدًا فَرَجَعْنَا إِلَيْهِ فَقُلْنَا لَهُ فَقَالَ لَسْتُ أَنَا أَحْمِلُکُمْ وَلَکِنَّ اللَّهَ حَمَلَکُمْ وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أَحْلِفُ عَلَی يَمِينٍ فَأَرَی غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا إِلَّا أَتَيْتُ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ مِنْهُ وَتَحَلَّلْتُهَا

عبداللہ بن عبد الوہاب، عبد الوہاب، ایوب، ابوقلابہ وقاسم، تمیمی، زہدم سے روایت کرتے ہیں کہ جرم کے اس قبیلہ اور اشعریوں کے درمیان دوستی اور بھائی چارہ تھا، ہم لوگ ابوموسی اشعری کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ان کے پاس کھانا لایا گیا جس میں مرغی کا گوشت تھا اس وقت ان کے پاس بنی تیم اللہ کا ایک شخص بیٹھا ہوا تھا وہ سوالی میں سے معلوم ہوتا تھا اس کو کھانے کے لئے بلایا تو اس نے کہا کہ میں نے اس کو کچھ کھاتے ہوئے دیکھا ہے جس سے مجھے گھن آئی میں نے قسم کھالی کہ میں یہ کبھی نہ کھاؤں گا، ابوموسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا آؤ میں تمہیں اس کے متعلق ایک حدیث بیان کروں، میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اشعریوں کی ایک جماعت کے ساتھ حاضر ہوا تاکہ آپ سے سواری مانگیں، آپ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میں تمہیں سواری نہیں دونگا اور نہ میرے پاس کچھ ہے کہ تمہیں سواری کے لئے دوں، پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس غنیمت کے کچھ اونٹ لائے گئے تو آپ نے ہم لوگوں کے متعلق پوچھا اور فرمایا کہ اشعریوں کی جماعت کہاں ہے پھر ہمارے لئے پانچ موٹے اور تازے اور عمدہ اونٹ دینے کا حکم فرمایا: ہم انہیں لے کر چلے تو آپس میں کہا ہم نے یہ کیا کیا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو قسم کھا چکے تھے کہ ہمیں سواری نہ دیں گے اور نہ آپ کے پاس کچھ ہے کہ سواری کے لئے دیں پھر بھی ہمیں سواری دی (شاید) آپ اپنی قسم بھول گئے، واللہ ہم فلاح نہیں پا سکتے، ہم آپ کے پاس لوٹ کر گئے اور آپ سے عرض کیا تو آپ نے فرمایا کہ میں نے تمہیں سواری نہیں دی بلکہ اللہ نے دی واللہ جب میں کسی بات پر قسم کھاتا ہوں اور بھلائی اس کے خلاف پاتا ہوں تو وہی کرتا ہوں جو بھلا ہوتا ہے اور اپنی قسم کا کفارہ دے دیتا ہوں۔

Narrated Zahdam:
There were good relations and brotherhood between this tribe of Jurm and the Ash'ariyyin. Once, while we were sitting with Abu Musa Al-Ash'ari, there was brought to him a meal which contained chicken meat, and there was sitting beside him, a man from the tribe of Bani Taimul-lah who looked like one of the Mawali. Abu Musa invited the man to eat but the man said, "I have seen chicken eating some dirty things, and I have taken an oath not to eat chicken." Abu Musa said to him, "Come along, let me tell you something in this regard. Once I went to the Prophet with a few men from Ash'ariyyin and we asked him for mounts. The Prophet said, By Allah, I will not mount you on anything; besides I do not have anything to mount you on.' Then a few camels from the war booty were brought to the Prophet, and he asked about us, saying, 'Where are the group of Ash'ariyyin?' So he ordered for five fat camels to be given to us and then we set out. We said, 'What have we done? Allah's Apostle took an oath that he would not give us anything to ride and that he had nothing for us to ride, yet he provided us with mounts. We made Allah's Apostle forget his oath! By Allah, we will never be successful.' So we returned to him and reminded him of his oath. He said, 'I have not provided you with the mount, but Allah has done so. By Allah, I may take an oath to do something, but on finding something else which is better, I do that which is better and make the expiation for my oath.' "

یہ حدیث شیئر کریں